Maktaba Wahhabi

371 - 442
پورے کریں کیونکہ مہینہ انتیس دن سے کم کا نہیں ہو سکتا بخلاف پہلے مسئلے کے کہ آپ روزے رکھنا بند نہیں کریں گے حتیٰ کہ چاند نظر آجائے، اگر نظر نہ آئے تو آپ ابھی تک ماہ رمضان ہی میں ہوں گے، لہٰذا روزہ چھوڑ نہیں سکتے۔ روزہ رکھنا آپ کے لیے لازم ہے، خواہ مہینے کے دن زیادہ ہی کیوں نہ ہوں، یہ ایسے ہے جیسے دن میں گھنٹوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ پرمشقت کام کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز نہیں سوال ۳۹۵: جس شخص کا کام بہت محنت مشقت کا ہو اور روزہ رکھنا اس کے لیے دشوار ہو تو کیا اس کے لیے روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ جواب :میری اس مسئلے میں رائے یہ ہے کہ کام کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا حرام ہے، جائز نہیں۔ اگر کام کے ساتھ روزہ رکھنا ممکن نہ ہو تو وہ رمضان میں چھٹی لے لے تاکہ رمضان میں روزے رکھ سکے کیونکہ رمضان کا روزہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے، اس میں کوتاہی جائز نہیں۔ ایام حیض کےروزوں کی قضا ادا کرنا ضروری ہے سوال ۳۹۶: ایک چھوٹی لڑکی کے ایام شروع ہوگئے اور وہ جہالت کی وجہ سے ایام حیض میں بھی روزے رکھتی رہی، اب اس پر کیا واجب ہے؟ جواب :اس پر واجب ہے کہ وہ ان دنوں کی قضا ادا کرے، جتنے دن ایام حیض میں اس نے روزے رکھے، کیونکہ ایام حیض میں روزہ قابل قبول اور صحیح نہیں ہے، خواہ وہ جاہل ہی ہو اور ادائے قضا کے لیے وقت کی کوئی حد نہیں ہے۔ مسئلے کی ایک صورت اس کے برعکس بھی ہے اور وہ یہ کہ چھوٹی لڑکی کے ایام شروع ہوگئے اور اس نے حیا کی وجہ سے گھر والوں کو نہ بتایا اور روزے بھی نہ رکھے تو اس پر اس مہینے کے روزوں کی قضا واجب ہے، جو اس نے نہیں رکھے تھے کیونکہ عورت کو جب حیض آنا شروع ہو جائے، تو اس کے لیے احکام شریعت کی پابندی واجب ہو جاتی ہے کیونکہ حیض بلوغت کی علامات میں سے ہے۔ کمانی کرنے کی وجہ سے روزے نہ رکھنے والے کے متعلق حکم سوال ۳۹۷: ایک آدمی نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کمائی کرنے کی وجہ سے رمضان کے روزے ترک کر دیے، تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ جواب :یہ شخص جس نے ماہ رمضان کے روزے اس لیے نہ رکھے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کمائی کر رہا تھا، اگر اس نے یہ کام تاویل سے کام لے کر یہ گمان کرتے ہوئے کیا کہ جیسے مریض کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھے، اسی طرح اس شخص کے لیے بھی جائز ہے، جو روزہ ترک کیے بغیر کام نہ کر سکتا ہو کہ وہ روزے کو چھوڑ دے تو یہ شخص اگر زندہ ہے تو اسے رمضان کے ان روزوں کی قضا ادا کرنا ہوگی اور اگر فوت ہوگیا ہے، تو اس کی طرف سے روزے رکھے جائیں گے۔ اگر اس کا وارث اس کی طرف سے روزے نہ رکھے تو وہ اس کی طرف سے ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ اگر اس نے تاویل کے بغیر روزے ترک کیے، تو پھر اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ ہر وہ عبادت جس کا وقت مقرر ہے، جب انسان اسے بلا عذر وقت مقرر پر ادا نہ کرے، تو وہ قبول نہیں ہوتی، لہٰذا اسے کثرت کے ساتھ اعمال صالحہ، نوافل اور استغفار کرنا چاہیے۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے، جو صحیح حدیث میں ہے:
Flag Counter