Maktaba Wahhabi

376 - 442
﴿وَ اِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآئِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ﴾ (النساء: ۱۰۲) ’’اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے، پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو پیچھے ہو جائیں، پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور تمہارے ساتھ نماز ادا کرے۔‘‘ مسافر جب اپنے شہر کے علاوہ دوسرے شہر میں ہو تو واجب ہے کہ جب اذان سنے تو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں آئے اِلاَّ یہ کہ وہ مسجد سے دور ہو یا ساتھیوں کے گم ہونے کا اندیشہ ہو۔ اذان واقامت سننے والے پر وجوب نماز باجماعت کے دلائل کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ مسافر ظہر، مغرب اور عشاء کی سنن مؤکدہ کے علاوہ دیگر تمام نوافل ادا کر سکتا ہے۔ وہ نماز و تر، تہجد، ضحی، صبح کی سنتیں اور دیگر غیر مؤکدہ نوافل پڑھ سکتا ہے۔ اگر مسافر چل رہا ہو تو اس کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھے جس طرح اس کے لیے آسانی ہو، جمع تقدیم و تاخیر کر سکتا ہے، جس کام میں زیادہ آسانی ہو، وہی افضل ہے۔ اگر مسافر کسی جگہ مقیم ہوگیا ہو تو افضل یہ ہے کہ جمع نہ کرے، اگر جمعہ کر بھی لے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ دونوں باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ جہاں تک رمضان میں مسافر کے روزے کا تعلق ہے، تو روزہ رکھنا افضل ہے اور اگر نہ رکھے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور جتنے دن روزے نہ رکھے، بعد میں ان کی قضا ادا کر لے۔ اگر روزہ نہ رکھنے میں زیادہ آسانی ہو تو افضل یہ ہے کہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ان کی عطا کردہ رخصتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ والحمد للّٰه رب العالمین اگر سفر میں مشقت زیادہ ہو تو روزہ نہ رکھنا واجب ہے سوال ۴۰۳: مشقت کے ساتھ مسافر کے روزے رکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :ایسی مشقت جو قابل برداشت ہو، اس کے ساتھ روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا تھا، جس پر سایہ کیا گیا تھا اور جس کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ایک روزہ دار ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ))( صحیح البخاری، الصوم، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمن ظلل علیہ واشتد الحر: ’’لیس من البر الصیام فی السفر‘‘ ح: ۱۹۴۶ وصحیح مسلم، الصیام، باب جواز الصوم والفطر فی شہر رمضان للمسافرین من غیر معصیۃ، ح: ۱۱۱۵)) ’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔‘‘ اور اگر روزہ رکھنے میں شدید مشقت ہو تو پھر واجب یہ ہے کہ روزہ نہ رکھا جائے کیونکہ ایک سفر میں جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ روزہ ان کے لیے بہت مشکل ہوگیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ بعض لوگوں نے ابھی تک روزہ رکھا ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter