Maktaba Wahhabi

397 - 442
صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ سوال ۴۳۹: ایک شخص کے ذمے رمضان کے روزے تھے، اس نے قضا ادا نہ کی حتیٰ کہ دوسرا رمضان شروع ہوگیا، تو وہ کیا کرے؟ جواب :ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ (البقرۃ: ۱۸۵) ’’تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو اسے چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیماری یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کر لے۔‘‘ تو یہ شخص جس نے کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزے چھوڑے تھے، اس کے لیے واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں قضا ادا کرے اور واجب ہے کہ اسی سال قضا ادا کرے دوسرے رمضان تک اسے مؤخر نہ کرے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے: ((کَانَ یَکُونُ عَلَیَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أَقْضِیہَ إِلَّا فِی شَعْبَانَ))( صحیح البخاری، الصوم، باب متی یقضی قضاء الصوم، ح: ۱۹۵۰۔) ’’رمضان کے روزے میرے ذمے ہوتے تھے تو میں ان کی قضا اداکرنے کی شعبان کے علاوہ دوسرے کسی مہینے میں استطاعت نہیں رکھتی تھی۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف ہونے کی وجہ سے جلد روزے نہیں رکھ سکتی تھیں اور انہوں نے جو یہ فرمایا: میں شعبان ہی میں ان کی قضا ادا کرنے کی استطاعت رکھتی تھی، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ دوسرا رمضان شروع ہونے سے پہلے قضا کے روزے رکھ لینا ضروری ہے۔ اگر وہ انہیں دوسرے رمضان کے بعد تک مؤخر کر دے تو اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ و استغفار کرے، اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کرے اور قضا ادا کرے کیونکہ تاخیر کی صورت میں قضا کی ادائیگی ساقط نہیں ہوتی، لہٰذا اسے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ادا کرنا ہوگی، خواہ دوسرے رمضان کے بعد ہی ادا کرے۔ واللّٰہ الموفق شوال کے روزے رکھنے کی افضل صورت سوال ۴۴۰: شوال کے چھ روزوں کے بارے میں افضل صورت کیا ہے؟ جواب :افضل یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے عید کے فوراً بعد شروع کر دیے جائیں اور مسلسل رکھے جائیں جیسا کہ اہل علم نے فرمایا ہے کیونکہ اتباع پر عمل کی بہترین صورت یہی ہے جس کا حدیث میں اس طرح ذکر کیا گیا ہے: ((ثُمَّ اَتْبَعَہٗ سِتًّا))( صحیح مسلم، الصیام، باب استحباب صوم ستۃ ایام من شوال، ح: ۱۱۶۴۔) ’’پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے۔‘‘ اور پھر نیکی کی طرف سبقت کی صورت بھی یہی ہے جس کی نصوص شریعت میں ترغیب دی گئی ہے اور جس کے سر انجام دینے والے کی ستائش کی گئی ہے۔ حزم واحتیاط کا بھی یہی تقاضا ہے، جو کمال عبدیت ہے۔ انسان کو فرصت کے لمحات میسر آئیں تو انہیں
Flag Counter