Maktaba Wahhabi

42 - 442
کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ، وَفِیْ اَنفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریات:۲۰۔۲۱) ’’اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے نفوس میں بھی ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘ اس مضمون کے متعلق اور بھی بہت سی آیات کریمہ ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات پر غور و فکر کرنے سے انسان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٭ کثرت طاعات: انسان جب کثرت سے اللہ تعالیٰ کی طاعات بجا لاتا ہے تو اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہو تا رہتا ہے، خواہ یہ طاعات قولی ہوں یا فعلی، ذکر ایمان کی کمیت وکیفیت میں اضافہ کر نے کا باعث ہے، اسی طرح نماز، روزہ اور حج سے بھی ایمان کی کمیت وکیفیت میں اضافہ ہو تا ہے۔ اس کے برعکس ایمان کو نقصان پہنچانے والے اسباب حسب ذیل ہیں: ٭جہالت: اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں جہالت ایمان میں کمی کا موجب ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں انسان کی معرفت میں کمی ہوگی تو اس سے خودبخود اس کے ایمان میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔ ٭غور و فکر نہ کرنا: اللہ تعالیٰ کی کونی وشرعی نشانیوں میں غور و فکر نہ کرنا بھی ایمان میں کمی کا سبب بنتا ہے یا کم از کم اس سے ایمان جامد ہو جاتا ہے اور نشوونما نہیں کر پاتا۔ گناہ کا ارتکاب: گناہ کے دل اور ایمان پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَزْنِی الزَّانِی حِیْنَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ)) صحیح البخاری، الحدود، باب الزنا وشرب الخمر، ح: ۶۷۷۲ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی… ح:۵۷۔) ’’زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔‘‘ ترک طاعت: ترک طاعت بھی ایمان میں کمی کا سبب ہے۔ اگر طاعت واجب ہو اور اس نے عذر کے بغیر اسے ترک کیا ہو تو یہ ایک ایسی کمی ہے جس پر اسے نہ صرف ملامت کی جائے گی بلکہ سزا بھی دی جائے گی اور اگر اطاعت واجب نہ تھی یا واجب تو تھی مگر اس نے اسے کسی شرعی عذر کی وجہ سے ترک کیا تو یہ ایک ایسی کمی ہے کہ اس پر اسے ملامت نہیں کی جائے گی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص قرار دیا اور دین کے اعتبار سے ناقص ہونے کا سبب یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ حالت حیض میں نماز نہیں پڑھتیں اور روزہ نہیں رکھتیں اور پھر اس حالت میں ترک صوم وصلوٰۃ کی وجہ سے وہ قابل ملامت بھی نہیں بلکہ انہیں حکم ہی یہی ہے کہ اس حالت میں وہ نماز اور روزے کو ترک کر دیں، چنانچہ جب وہ اپنے اس شرعی عذر کی وجہ سے ان کاموں کو سر انجام دینے سے قاصر ہیں جنہیں سر انجام دینے میں مردوں کو کوئی عذر نہیں تو اس وجہ سے وہ مردوں کے مقابلہ میں ناقص قرار پائیں۔ حدیث جبریل اورحدیث عبدالقیس میں تطبیق کی صورت کیا ہے؟ سوال: حدیث جبرئیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے:
Flag Counter