Maktaba Wahhabi

443 - 442
ہوگا۔ واللّٰہ الموفق سوال ۵۱۳: جس شخص نے حج تمتمع کا احرام باندھا اور عمرہ ادا کر لیا مگر جہالت کی وجہ سے احرام نہ کھولا حتیٰ کہ اس نے قربانی کو ذبح کر دیا تو اس پر کیا لازم ہے؟ کیا اس کا حج صحیح ہے؟ جواب :انسان کے لیے اس بات کو جاننا واجب ہے کہ جب اس نے حج تمتع کا احرام باندھا ہو اور وہ طواف وسعی کر لے تو سارے سر کے بال کٹوا دے اور احرام کھول دے، اس پر اس کے لئے یہی واجب ہے۔ پھر اگر وہ حالت احرام ہی میں رہے اور اس نے طواف عمرہ شروع کرنے سے پہلے حج کی نیت کی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں اس کا حج قران ہوگا اور اس کی قربانی حج قران کی قربانی ہوگی۔ اگر وہ ابھی تک عمرے کی نیت پر تھا حتیٰ کہ اس نے طواف وسعی کر لی تو بہت سے اہل علم یہ کہتے ہیں کہ اس کا حج کا احرام باندھنا صحیح نہیں ہے کیونکہ عمرے کا طواف شروع کرنے کے بعد حج کو عمرے پر داخل کرنا صحیح نہیں ہے جبکہ بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ شخص جاہل تھا اس لیے میری رائے بھی یہی ہے کہ اس پر کچھ لازم نہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ اس کا حج صحیح ہے۔ واللّٰہ الموفق عمرہ کرنے والا کہاں بال کٹوائے ؟ سوال ۵۱۴: ایک شخص عمرہ کرتا ہے اور بال اپنے شہر میں کٹواتا ہے تو اس کے عمرے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اہل علم کا قول ہے کہ سر منڈوانا کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اگر مکہ میں بال منڈوا لیے جائیںیا غیر مکہ میں تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ یاد رہے کہ عمرے سے حلال ہونا بال منڈوانے پر موقوف ہے اور پھر سر منڈوانے کے بعد طواف وداع بھی ہوتا ہے، یعنی عمرے کی ترتیب اس طرح ہے: احرام، طواف، سعی، حلق یا تقصیر اور طواف وداع بشرطیکہ عمرہ ادا کرنے کے بعد انسان مکہ میں مقیم رہے۔ اگر عمرہ کے تمام افعال سر انجام دینے کے بعد وہ سفر کا ارادہ کر لے تو پھر اس پر طواف وداع نہیں ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر وہ مکہ میں مقیم ہونا چاہتا ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ سر کے بال منڈوائے یا کٹوائے کیونکہ اس کے بعد اسے طواف وداع کرنا ہوگا اور اگر وہ طواف وسعی کے فوراً بعد اپنے شہر کی طرف روانہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنے شہر میں جا کر بال منڈوایا کٹوا لے لیکن بال منڈوانے یا کٹوانے تک وہ حالت احرام ہی میں ہوگا۔ تاخیر کی وجہ سےاذان فجر کے وقت مزدلفہ آنے کے متعلق حکم سوال ۵۱۵: کچھ لوگ مزدلفہ کا راستہ بھول گئے اور جب وہ مزدلفہ کے قریب پہنچے تو رک گئے اور انہوں نے رات کے ایک بجے مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں اور پھر وہ اذان فجر کے وقت مزدلفہ میں داخل ہوئے، تو کیا ان پر کچھ لازم ہے؟ فتویٰ عطا فرمائیں۔ جواب :ان لوگوں پر کچھ لازم نہیں کیونکہ وہ اذان فجر کے وقت مزدلفہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے صبح کی نماز یہاں اندھیرے میں ادا کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَنْ شَہِدَ صَلَاتَنَا ہٰذِہِ، وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّی ند ْفَعَ، وَقَدْ وَقَف قبل ذلکَ بِعَرَفَۃَ َ لَیْلًا اَوْ
Flag Counter