Maktaba Wahhabi

449 - 442
رمی جمار کا صحیح وقت سوال ۵۲۵: رمی جمار کا وقت کیا ہے؟ جواب :جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت عید کا دن ہے۔ اہل قدرت ونشاط کے لیے یہ وقت عید کے دن کے طلوع آفتاب سے شروع ہوتا ہے جب کہ کمزوروں اور بھیڑ کا مقابلہ نہ کر سکنے والے بچوں اور عورتوں کے لیے یہ وقت عید کی رات کے آخری حصے سے شروع ہو جاتا ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما عید کی رات چاند کے غروب ہونے کا انتظار کیا کرتی تھیں۔ جب چاند غروب ہو جاتا تو وہ مزدلفہ سے منیٰ آجاتیں اور جمرہ کو رمی کرتیں، اس کا آخری وقت عید کے دن غروب آفتاب تک ہے اگر ہجوم بہت زیادہ ہو یا انسان جمرات سے دور ہو اور وہ رمی کو رات تک مؤخر کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں، البتہ وہ گیارہویں تاریخ کی طلوع فجر تک اسے مؤخر نہ کرے۔ ایام تشریق یعنی گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ کو رمی جمار کا وقت زوال آفتاب یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے سے لے کر نصف رات تک ہے۔ اگر مشقت یا ہجوم ہو تو پھر رات کو طلوع فجر تک رمی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ کو زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی کی اور آپ نے لوگوں سے فرمایا تھا: ((ٔخُذُوا عنی مَنَاسِکَکُمْ))( صحیح البخاری، العلم، باب الفتیا وہو واقف علی الدابۃ وغیرہا، ح: ۸۳، وصحیح مسلم، الحج، باب استحباب رمی جمرۃ العقبۃ یوم النحر، ح: ۱۲۹۷، واللفظ لہ۔) ’’تم اپنے مناسک حج مجھ سیکھو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال آفتاب تک رمی کو مؤخر کرنا حالانکہ وہ سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اور دن کے ابتدائی حصے میں رمی نہ کرنا حالانکہ اس وقت گرمی بھی نہیں ہوتی اور آسانی بھی ہوتی ہے، اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت سے پہلے رمی کرنا حلال نہیں اور اس کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے وقت نماز ظہر پڑھنے سے پہلے رمی فرمایا کرتے تھے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زوال سے پہلے رمی کرنا حلال نہیں ہے ورنہ زوال سے پہلے رمی افضل ہوتی تاکہ نماز ظہر کو اول وقت میں ادا کیا جا سکے کیونکہ نماز اپنے ا ول وقت میں ادا کرنا افضل ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام تشریق میں زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ۔ ایک بیمار شخص کےمتعلق کیاحکم ہے جونہ رمی کر سکانہ طواف؟ سوال ۵۲۶: ایک شخص عرفہ کے دن بیمار ہوگیا جس کی وجہ سے اس نے منیٰ میں رات گزاری۔ نہ وہ رمی جمار کر سکا اور نہ ہی طواف کر سکا، تو اس پر کیا لازم ہوگا؟ جواب :اگر یہ شخص عرفہ کے دن اس قدر شدید بیمار ہوگیا کہ اس کے لیے حج کو مکمل کرنا ممکن نہ رہا، حالانکہ اس نے احرام باندھتے وقت یہ شرط عائد کی تھی کہ اگر مجھے کوئی روکنے والا روک لے، تو میں وہاں حلال ہو جاؤں گا، جہاں تو مجھے روک دے گا، تو وہ حلال ہو جائے اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ لازم نہ ہوگا، البتہ اگر یہ حج فرض ہو تو اسے یہ حج کسی دوسرے سال ادا کرنا ہوگا اور اگر اس نے بوقت احرام وہ مذکورہ بالا شرط عائد نہیں کی تھی تو راجح قول کے مطابق اگر اس کے لیے حج مکمل کرنا ممکن نہ ہو تو وہ حلال ہو جائے لیکن اس پر ہدی
Flag Counter