Maktaba Wahhabi

63 - 442
اس کے عمل میں عبادت کی نیت زیادہ غالب ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو غالب نیت غیر عبادت کی ہوگی۔ بہرحال نیت، جو دل کے ارادے کا نام ہے، کا معاملہ بہت عظیم اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نیت ہی انسان کو صدیقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے اور نیت ہی انسان کو پست سے پست درجے تک گرا دیتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے: ’’اخلاص کی وجہ سے مجھے اپنے نفس کے خلاف جس طرح جہاد کرنا پڑا، کسی اور چیز کی وجہ سے مجھے ایسا جہاد نہیں کرنا پڑا۔‘‘ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اخلاص نیت اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ اہل سنت والجماعت کے مسلک میں امید اور خوف کے پہلو سوال ۲۱: امید اور خوف کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا کیا مذہب ہے؟ جواب :اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں کہ انسان امید کے پہلو کو مقدم قرار دے یا خوف کے پہلو کو۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خوف اور امید کا پہلو ایک جیسا ہی ہونا چاہیے، خوف کا پہلو امید پر غالب ہو نہ امید کا پہلو خو ف پر غالب ہو۔‘‘ اور انہی سے منقول ہے: ’’اگران دونوں پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو غالب آجائے، تو بندہ ہلاک وبربادہو جائے ۔‘‘ کیونکہ اگر اس نے امید کے پہلو کو غالب کر دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہو جائے گا اور اگر اس نے خوف کے پہلو کو غالب کر دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کا شکار ہو جائے گا۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے: ’’فعل طاعت کے وقت امید کا پہلو غالب ہونا چاہے اور ارادہ معصیت کے وقت خوف کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ کیونکہ بندہ جب طاعت کا کام کرے گا تو گویاکہ اس نے حسن ظن کے مطابق کام کیا، لہٰذا امید وآس یعنی قبولیت کا پہلو غالب ہونا چاہیے لیکن معصیت کے ارادے کے وقت خوف کا پہلو غالب ہونا چاہیے تاکہ انسان سرے سے معصیت کا ارتکاب ہی نہ کر ے۔ کچھ دوسرے لوگوں نے یہ کہا ہے: ’’تندرست آدمی کے لیے خوف کا پہلو اور مریض کے لیے امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔‘‘ کیونکہ تندرست آدمی پر جب خوف کا پہلو غالب ہوگا تو وہ اسے معصیت سے بچائے گا اور مریض پر جب امید کا پہلو غالب ہوگا تو وہ اللہ تعالیٰ سے حسن ظن کے ساتھ ملاقات کرے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ اس مسئلے میں مختلف حالات میں صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ غلبہ خوف کے وقت جب اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے کا اندیشہ ہوتو اس کے لیے اس اندیشے کو زائل کر دینا اور امید کے پہلو کو پیش نظر رکھنا واجب ہے اور امید کے پہلو کو غالب قرار دینے کی صورت میں جب اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہونے کا ڈر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوف کے پہلو کو غالب کر دے۔ انسان درحقیقت خود اپنا معالج وطبیب ہے بشرطیکہ اس کا دل زندہ ہو اور جس شخص کا دل مردہ ہو اور وہ اپنے دل کا علاج کر سکتا ہو نہ اپنے دل کے حالات کا جائزہ لے سکتا ہو تو اسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی وہ شتر بے مہارہوتا ہے۔ سوال ۲۲: کیا اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی ہے؟ جنگ خلیج کے دوران بعض لوگوں نے اسباب اختیار کیے تھے اور بعض نے انہیں ترک کر دیا تھااورکہنا شروع کردیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں؟
Flag Counter