Maktaba Wahhabi

84 - 442
ہے کہ اس کا اظہار ایسی عبارت سے ہو جو اس حقیقت کو بیان کرتی اور باطل مدلول کی نفی کرتی ہو، مثلاً: یوں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہمیشہ مرد مومن کے دل میں ہوتا ہے۔ اس طرح بات کرنے والوں کے کلام سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ارادہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کے بجائے اس معتقدکو اس کے بدلہ اختیار کریں کہ ’’وہ مومن کے دل میں ہے‘‘ اس معنی کے اعتبار سے یہ بات بالکل باطل ہے۔ مومن کو اس بات کے انکار سے ڈرنا چاہیے جس پر کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجماع سلف دلالت کرتے ہوں اور اسے ایسی مجمل اور مبہم باتیں اختیار نہیں کرنی چاہئیں جن میں حق اور باطل دونوں معنوں کا احتمال ہو، بلکہ اسے چاہیے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والے مہاجرین وانصار کے راستے کو اختیار کرے تاکہ وہ بھی اس آیت کریمہ کا مصداق بن جائے: ﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، ﴾ (التوبۃ: ۱۰۰) ’’جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو انہی بندوں میں سے بنا ے(جوسابقین أولین)کے نقش قدم پر قائم ودائم ہوں اور ہم سب کو اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے، بے شک وہی عطا فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کے معنیٰ؟ سوال ۳۲: کیا یہ تفسیر سلف صالحین سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے عرش پر اس طرح ہے، جیسے اس کے جلال کے شایان شان ہے؟ جواب :اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر استواء کی یہ تفسیر کہ وہ اپنے عرش پر اس طرح مستوی ہے جیسے اس کے جلال کے شایان شان ہے، دراصل سلف صالحین کی تفسیر ہے۔ امام المفسرین ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ استواء کے معنی علو وارتفاع کے بھی ہیں جیسے کوئی کہتا ہے کہ (اسْتَویٰ فُلَانٌ عَلٰی سَرِیْرَہِ) ’’فلاں اپنے تخت پر مستوی ہے‘‘ تو اس سے مراد علوہوتا ہے اور انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ ’’رحمن نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رحمن اپنے عرش پر مرتفع اور بلند ہے، سلف سے اس کے مخالف تفسیر منقول نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لغت میں استواء کا لفظ کئی طرح سے استعمال ہوتا ہے، مثلاً: ٭ اگر یہ مطلق اور غیر مقید استعمال ہو تو اس کے معنی کمال کے ہوتے ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ اسْتَوٰٓی﴾ ’’اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور (عقل وشعور میں) کامل ہوگئے۔‘‘ ٭ واو کے ساتھ مل کر استعمال ہو تو یہ برابری کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے: (اسْتَوَی الْمَائُ وَالْعَتَبَۃَ) ’’پانی اور دہلیز برابر ہوگئے۔‘‘
Flag Counter