Maktaba Wahhabi

90 - 442
’’اللہ کی اونٹنی (کی حفاظت کرو) اور اس کو پانی پلانے کی۔‘‘ دوسری قسم: وہ چیز جس کے ساتھ کوئی دوسری چیز قائم ہو، مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ رُوْحٌ مِّنْہُ﴾ (النساء: ۱۷۱) ’’اور اس کی طرف سے ایک روح۔‘‘ اس روح کی اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت، مخلوق کی اس کے شرف کی وجہ سے خالق کی طرف اضافت کے قبیل سے ہے اور یہ روح بھی انہیں ارواح میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا جز نہیں کیونکہ یہ روح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں تھی لہٰذایہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے بالکل ایک الگ چیز ہے۔ یہ قسم بھی مخلوق ہے۔ تیسری قسم: محض وصف ہو اور مضاف اللہ تعالیٰ کی صفت ہو۔ یہ قسم غیر مخلوق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات غیر مخلوق ہیں، مثلاً: اللہ تعالیٰ کی قدرت، اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس طرح کی دیگر صفات باری تعالیٰ جو قرآن مجید میں کثرت کے ساتھ مذکور ہیں۔ اللہ کے ناموں یا صفات کا انکار کفر ہے سوال ۳۸: اگر اللہ تعالیٰ کے اسماء یا صفات میں سے کسی چیز کا انکار کر دیا جائے، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس انکار کی دو قسمیں ہیں: انکار تکذیب: یہ بلا شک و شبہ کفر ہے۔ اگر کوئی شخص کتاب وسنت میں ثابت شدہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی اسم یا صفات میں سے کسی صفت کا انکار کر دے، مثلاً: وہ یہ کہے کہ اللہ کا ہاتھ نہیں ہے، تو تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ایسا شخص کافر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کسی خبر کی تکذیب کرنا ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔ انکار تاویل: یعنی انکار تو نہ کرے مگر تاویل سے کام لے۔ اس کی درج ذیل دو قسمیں ہیں: ٭ اس تاویل کی عربی زبان میں گنجائش ہو تو یہ موجب کفر نہیں ہے۔ ٭ عربی زبان میں اس تاویل کی گنجائش نہ ہو تو یہ موجب کفر ہے۔ کیونکہ جب زبان میں اس کی گنجائش نہ تھی تو یہ تکذیب ہوگئی جیسے کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کا نہ تو حقیقت میں کوئی ہاتھ ہے اور نہ یہ نعمت یا قوت کے معنی میں ہے تو یہ کافر ہے کیونکہ اس نے مطلق نفی کر دی ہے اور یہ حقیقتاً تکذیب کرنے والا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص ارشاد باری تعالیٰ: ﴿بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ﴾ (المائدۃ: ۶۴) ’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔‘‘ کے بارے میں یہ کہے کہ دونوں ہاتھوں سے مراد آسمان اور زمین ہیں تو وہ بھی کافر ہے کیونکہ ازروئے لغت یہ معنی صحیح نہیں ہیں اور نہ شرعی حقیقت ہی کا یہ تقاضا ہے، لہٰذا یہ معنی بیان کرنے والا بھی منکر اور مکذب ہی قرار پائے گا۔ ہاں اگر وہ یہ کہے کہ ﴿یَدٌ﴾ سے مراد نعمت یا قوت ہے، تو وہ کافر نہیں ہوگا کیونکہ ﴿یَدٌ ﴾ کا لفظ عربی زبان میں نعمت کے معنی میں بھی
Flag Counter