Maktaba Wahhabi

140 - 728
4۔ ظاہر تو یہی ہے کہ استہزا کی علت کفر ہے، کیونکہ جس وقت استہزا کیا تھا، اس وقت تک وہ اسلام نہیں لائے تھے، لیکن جس وقت آپ نے ان کو ترجیع سکھائی تھی، اس وقت اسلام کے نور سے ان کا دل منور ہوچکا تھا، پس اُس وقت کی نسبت یہ کہنا کہ ’’یہ تکرار برفع صوت (ترجیع) واسطے رفع کراہت قلبی ابو محذورہ کے اور واسطے رفع کفر ابو محذورہ کے تھا نہ یہ کہ تکرار کو سنتِ اذان فرمایا ہے، مگر ابو محذورہ رضی اللہ عنہ اس کو نہ سمجھے۔‘‘ صحت سے بہت دور معلوم ہوتا ہے اور نسائی میں بھی کہیں اس کا کچھ ذکر نہیں ہے، بلکہ علامہ زیلعی حنفی نے ’’نصب الرایۃ‘‘ میں اس کی کافی تردید فرما دی ہے۔ ’’نصب الرایۃ‘‘(۱/ ۱۳۱) کی عبارت یہ ہے: "ویردھا لفظ أبي داود: ’’قلت: یا رسول اللّٰه علمني سنۃ الأذان، وفیہ: ثم تقول: أشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ، أشھد أن محمدا رسول اللّٰه ، تخفض بھا صوتک، ثم ترفع صوتک بھا، فجعلہ من سنۃ الأذان، وھو کذلک في صحیح ابن حبان و مسند أحمد" اھ [ابو داود کے یہ الفاظ ان کا رد کرتے ہیں (ابو مخذورہ کا بیان ہے) کہ میں نے عرض کی: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجیے۔ اس حدیث میں یہ ہے کہ پھر تم کہو "أشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰه ، أشھد أن محمداً رسول اللّٰه " (پہلی دفعہ) تو یہ کہتے ہوئے آواز کو پست رکھ، پھر (دوسری مرتبہ) ان کو بلند آواز کے ساتھ کہہ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (ترجیع شہادتین) کو اذان کے طریقے میں (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تھا) شامل کیا ہے۔ صحیح ابن حبان اور مسند احمد میں بھی اسی طرح بیان ہوا ہے] 5۔ ہاں جمہور ترجیعِ اذان کے قائل ہیں ۔ ’’نیل الأوطار‘‘ (۱/ ۳۳۷) میں ہے: "وذھب الشافعي ومالک وأحمد وجمھور العلماء، کما قال النووي، إلیٰ أن الترجیع في الأذان ثابت لحدیث أبي محذورۃ۔۔۔ إلی قولہ: ویرجحہ أیضاً عمل أھل مکۃ والمدینۃ بہ"اھ۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم [امام نووی رحمہ اللہ کی طرح امام شافعی، مالک، احمد اور جمہور علما رحمہم اللہ اس طرف گئے ہیں کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے اذان میں ترجیع ثابت ہے۔۔۔ حتی کہ اہلِ مکہ اور اہلِ مدینہ کا ترجیع والی اذان کہنا بھی اس کو راجح قرار دیتا ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۳/ ربیع الآخر ۱۳۳۱ھ) نماز کے مسائل اذان اور نماز کے چند مسائل: سوال: ایک بستی میں ایک جماعت محمدیوں کی رہتی ہے، ان میں چند باتیں نئی دیکھنے میں آئیں ۔ آیا سب موافق حدیث نبوی کے ہیں یا کوئی نیا طریقہ ہے؟ اگر موافق حدیث کے یہ افعال ہیں تو کس فعل کی کون سی حدیث ہے اور وہ
Flag Counter