Maktaba Wahhabi

177 - 728
دوسری جگہ دیباچہ میں لکھا ہے کہ میں امید رکھتا ہوں کہ جو کچھ حدیثیں اس کتاب میں ہیں ، سب صحیح ہوں ۔[1] صاحبِ حصن حصین کے ان اقوال سے مظنون یہی ہے کہ یہ حدیث بھی صحیح ہو، اگر ایسا ہے تو بعد﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کے ’’رَبِّ اغْفِرْ لِيْ آمِیْنَ‘‘ کہنا مسنون ہوگا۔ نماز میں ﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ﴾ کا جواب دینا: سوال: 1۔﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ﴾ کے سننے والے کو جواب دینے کا ثبوت کسی حدیث صحیح سے ہے یا نہیں ؟ ’’بلی وأنا علی ذلک من الشاھدین‘‘ کلام ہے یا نہیں ؟ اگر کلام ہے تو اس سے نماز میں کچھ فتور ہوتا ہے یا نہیں ؟ جواب: 1۔ ﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ﴾ کے سننے والے کو جواب دینے کا ثبوت کسی حدیث سے باوجود تلاش کثیر مجھے اب تک دستیاب نہیں ہوا۔ ہاں پڑھنے والے کو جواب دینے کا ثبوت البتہ حدیث سے ہے، جیسا کہ جواب سوال میں مندرج ہے۔ 2۔ ’’بلیٰ وأنا علی ذلک من الشاھدین‘‘ کے کلام ہونے میں تو کچھ شبہہ نہیں ہے، لیکن نماز میں جو کلام ممنوع ہے، وہ وہی کلام ہے جو کسی آدمی یا دیگر کسی مخلوق سے کیا جائے، نہ کہ ہر کلام اور جواب مذکور اس قبیل سے نہیں ہے، تو اس کی ناجوازی اس وجہ سے نہیں ہو سکتی ہے کہ یہ کلام ہے اور کلام نماز میں ممنوع ہے، لیکن نماز ایک ایسی چیز ہے، جس میں آدمی خود مختار نہیں ہے کہ جو چاہے، اس میں گھٹاوے یا بڑھاوے، بلکہ اس میں پابندی قانون شرع شریف کی لازم ہے۔ صحیح بخاری ابوب الاذان میں مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: (( صلوا کما رأیتموني أصلي )) [2] یعنی نماز اس طرح پر پڑھو، جس طرح پر مجھ کو پڑھتے دیکھتے ہو۔ تو نماز حسبِ تعلیم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنی چاہیے نہ کہ جس طرح اپنا جی چاہے، تو جس سننے والے شخص کو ’’ألیس اللّٰه بأحکم الحاکمین‘‘ کے جواب دینے کا ثبوت کسی شرعی دلیل سے نہ پہنچا ہو تو اس کے تا پہنچنے ثبوت کے جواب دینا ملتوی کرنا چاہیے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ) نماز میں قراء ت سے متعلق دو حدیثیں : سوال: 1۔ وہ حدیث صحیح بخاری میں کہاں پر ہے، جس میں ہے کہ ایک امام ہر رکعت میں ﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد
Flag Counter