Maktaba Wahhabi

266 - 728
میں بولنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ عربی کے سوا دوسری ساری بولیاں مورثِ نفاق ہوتی ہیں تو اگر بالفرض حدیث مذکور صالح احتجاج بھی ہو تو بھی اس سے اسی قدر ثابت ہوگا کہ جس کو اچھی عربی بولنی آتی ہو وہ دوسری کوئی بولی نہ بولے، نہ یہ کہ جو شخص عربی اصلاً بول ہی نہ سکتا ہو یا بول تو سکتا ہو، لیکن اچھی عربی نہ بول سکتا ہو، وہ بھی عربی کے سوا دوسری کوئی بولی نہ بولے اور ہر ذی عقل اتنا سمجھ سکتا ہے کہ اچھی عربی بولنے والے سے بھی اس حکم کی تعمیل جب ہی ہوسکتی ہے کہ اس کے مخاطبین، جن سے وہ عربی بولے، اس کی عربی بولی سمجھ بھی سکتے ہوں ۔ ورنہ ان سے عربی بولنا محض عبث ہی نہیں ، بلکہ سراسر بے عقلی ہے۔﴿ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّ ﴾ [حم السجدۃ: ۴۴] الغرض حدیث مذکور سے بفرضِ صحتِ احتجاج اسی قدر ثابت ہوگا کہ جب کوئی متکلم اچھی عربی بول سکتا ہو اور اس کے مخاطبین بھی اس کی عربی سمجھ سکتے ہوں تو اس کو عربی کے سوا اور کسی زبان میں بولنا ناجائز ہوگا، لیکن یہ امر متنازع فیہ نہیں ہے۔ متنازع فیہ امر یہ ہے کہ جب خطیب عربی بول ہی نہ سکتا ہو یا بول سکتا ہو، لیکن اچھی عربی نہ بول سکتا ہو یا اچھی عربی بھی بول سکتا ہو، لیکن اس کے سامعین اس کی عربی سمجھ نہ سکتے ہوں تو کیا ایسی حالت میں بھی اس کو عربی ہی میں خطبہ پڑھنا ضروری ہوگا اور دوسری کسی زبان میں جس کو سامعین سمجھ سکتے ہوں ، خطبہ پڑھنا ممنوع اور ناجائز ہوگا؟ بس یہی امر متنازع فیہ ہے اور حدیث مذکور اس امر سے بالکل ساکت ہے۔ الحاصل حدیث مذکور سے (بفرض صلاحیتِ احتجاج) جس امر کی ممنوعیت اور ناجوازی ثابت ہوتی ہے، اس سے یہاں بحث نہیں ہے اور جس امر سے یہاں بحث ہے، حدیث مذکور سے اس کی ناجوازی ثابت نہیں ہوتی۔ کیا خطبہ جمعہ میں وعظ کرنا بدعت ہے؟ سوال: ما قولکم أیھا العلماء الکرام في أن الوعظ في الخطبۃ یوم الجمعۃ ھل یجوز أم لا؟ وھل قول من قال: إن الوعظ في الخطبۃ یوم الجمعۃ بدعۃ محضۃ مخالف للسنۃ النبویۃ، ولیس ھو مما ذکر جوازہ في کتب الفقہ۔ صحیح أم لا؟ [علماے کرام کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے کہ جمعے کے دن خطبے میں وعظ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ کیا کسی شخص کا یہ کہنا کہ جمعے کے دن خطبے میں وعظ کرنا محض بدعت، سنت نبویہ کے مخالف اور فقہ کی کتابوں میں اس کے جواز کا کوئی ذکر نہیں ہے، درست ہے یا نہیں ؟] جواب: الحمد للّٰه وکفیٰ، وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ، أما بعد: فقد سألت۔ رحمک اللّٰه ۔ عن الوعظ في الخطبۃ ھل یجوز أم لا؟ وھل قول من قال: إن الوعظ في الخطبۃ یوم الجمعۃ بدعۃ محضۃ مخالف للسنۃ النبویۃ، ولیس ھو مما ذکر جوازہ في کتب الفقہ، صحیح أم لا؟ فاعلم أن الوعظ في الخطبۃ یوم الجمعۃ لیس ببدعۃ أصلا، بل ھو جائز مشروع، ثابت بالسنۃ النبویۃ ثبوتاً بینا، مذکور جوازہ في کتب الفقہ ذکرا صریحاً، وھا أنا أذکر شیئاً من الأحادیث
Flag Counter