Maktaba Wahhabi

325 - 728
جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا] عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( من اتبع جنازۃ مسلم إیمانا واحتساباً، وکان معہ حتی یصلی، ویفرغ من دفنھا، فإنہ یرجع من الأجر بقیراطین، کل قیراط مثل أحد، ومن صلیٰ علیھا، ثم رجع قبل أن تدفن فإنہ یرجع بقیراط )) [1] (متفق علیہ، مشکوۃ شریف، ص: ۱۳۲) [ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے میں شریک ہوتا ہے، اس کے ساتھ رہتا ہے، حتی کہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جاتی ہے اور اس کے دفنانے سے فارغ ہوا جاتا ہے تو وہ دو قیراط اجر کے ساتھ واپس آتا ہے، ہر قیراط اُحد پہاڑ کی مثل ہے اور جو شخص نمازِ جنازہ پڑھتا ہے اور اس کے دفن ہونے سے پہلے واپس آجاتا ہے تو وہ ایک قیراط اجر کے ساتھ واپس آتا ہے] ہاں اگر کوئی ایسا مقتدا شخص ہو کہ اس کے نماز نہ پڑھنے سے ان کو عبرت ہونے کی امید ہو اور وہ مقتدا اسی خیال سے اس شخص کے جنازہ کی نماز نہ پڑھے کہ شاید دوسرے لوگ متنبہ ہو جائیں اور نماز میں سستی نہ کریں ، اس خیال سے کہ نماز میں سستی کرنے کی شامت سے ایسے بزرگ کی نماز اور دعا سے محروم اور بے نصیب ہونا پڑے گا، تو ایسے مقتدا کو اس شخص کی جنازہ کی نماز نہ پڑھنی شاید جائز ہو۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ 2۔ دوسرے سوال کا جواب بھی وہی ہے جو پہلے سوال کا جواب ہے کہ اس لڑکے کے جنازہ کی نماز بھی پڑھنی چاہیے، کیونکہ وہ لڑکا مسلمان کا بچہ ہے اور مسلمان کا بچہ مسلمان کا حکم رکھتا ہے۔ عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( ما من مولود إلا یولد علی الفطرۃ )) (بخاري شریف مع فتح الباري: ۱/ ۶۹۸ چھاپہ دہلی) و اللّٰه أعلم بالصواب۔ [ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرتِ (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه غائبانہ نمازِ جنازہ کا حکم: سوال: ایک مسلمان سفر میں مر گیا، اس کے انتقال کی خبر سن کے سننے والے کو نمازِ غائب موتی کی پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ جواب: غائب پر نمازِ جنازہ پڑھنا درست ہے، اس لیے کہ جب نجاشی حبشہ کے بادشاہ نے حبشہ میں انتقال کیا تھا تو حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں اُس پر جنازہ کی نماز پڑھی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری مع فتح الباری (۱/ ۶۸۹ مطبوعہ دہلی) میں ہے:
Flag Counter