Maktaba Wahhabi

397 - 728
ھو الموفق: اس بارے میں کہ عورت کس شوہر کو ملے گی؟ وہی تین روایتیں جو جواب میں لکھی گئی ہیں ، نقل کی جاتی ہیں ، مگر جن کتابوں سے یہ روایتیں نقل کی جاتی ہیں ، وہ یہاں موجود نہیں کہ ان میں دیکھ کر ان روایتوں کا صحیح ہونا یا ضعیف ہونا معلوم ہو۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبدالرحمن مبارکپوری نکاحِ متعہ کا حکم: سوال: متعہ کا حکم مثل خنزیر ہے یا مثل زنا کے اور وقتِ اضطرار جائز ہے یا نہیں ؟ جواب: نکاحِ متعہ جائز نہیں ہے، یعنی ہر حال میں حرام ہے۔ یہ نکاح قیامت تک حرام ہے۔ قال اللّٰه تعالیٰ:﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ * اِِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ* فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ﴾ [المومنون والمعارج: ۵، ۶، ۷] [اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں ، یا ان (عورتوں ) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں ۔ پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں ] وعن سبرۃ الجھني أنہ کان مع النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: (( یا أیھا الناس إني کنت أذنت لکم في الاستمتاع من النساء، وإن اللّٰه تعالیٰ حرم ذلک إلی یوم القیامۃ )) [1] الحدیث (رواہ أحمد و مسلم، المنتقیٰ مع النیل: ۶/ ۴۳) [سبرہ جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تم کو عورتوں سے (نکاحِ) متعہ کرنے کی اجازت دے رکھی تھی اور (اب سن لو!) بلاشبہ الله تعالیٰ نے اس کو قیامت تک حرام قرار دیا ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه اس کے متعلق واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی اجازت حالتِ اضطرار میں فرمائی تھی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منسوخ فرمائی تو اِس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ جواز حالتِ اضطرار پر نسخ وارد ہوا، اب حالت اضطرار وغیرہ میں یکساں ناجائز و حرام ہے، جس طرح زنا و استمناء بالید ہر حال میں حرام ہے۔ خنزیر و مردار پر اس کا قیاس نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ گو تنگی میں جو اضطرار ہوتا ہے، اس میں ہلاکِ نفس اور جان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے سدِ رمق کے لیے تھوڑی مقدار میں اکلِ حرام جائز کیا گیا۔ بخلاف شہوت انسانیہ کے کہ اس کی زیادتی میں جان کا اندیشہ نہیں ہے، البتہ زنا کا اندیشہ ہے، چنانچہ حسبِ فرمان شارعجواب: اس کا علاج اس شخص کے لیے جسے نکاح کا مقدور نہ ہو، روزہ ہے اور بہت سی دوائیں بھی اس قوت کی گھٹانے والی ہیں ۔ بعض لوگ جو یہ عذرِ کیک پیش کرتے ہیں کہ صحیح مسلم میں چونکہ لفظ کا تحذیر متعہ کے بارے میں وارد ہے، اس لیے ہم بھی اسی کے موافق یہ لفظ بولتے ہیں ۔
Flag Counter