Maktaba Wahhabi

612 - 728
اور چماروں سے یوں کہہ دیا جائے کہ اگر اس روپے سے دیہات کا چمڑا خرید کر لاؤ گے اور ہم سے فروخت کرانے کو کہو گے تو ہم تمھارا چمڑا دساور جا کر یا دساور سے خریدار کو بلوا کر معقول نفع کے ساتھ فروخت کرا دیں گے اور ایک روپیہ ۴ آنے حق المحنت لے لیں گے تو یہ معاملہ بلاشبہ جائز ہو جائے گا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ 2۔ مرداری چمڑے کی بغیر دباغت کے نہ تو تجارت جائز ہے اور نہ جاے نماز بنانا جائز ہے۔ مشکوۃ میں ہے: ’’عن عبد اللّٰه بن عباس قال: تصدق علی مولاۃ لمیمونۃ بشاۃ فماتت فمر بھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: (( ھلا أخذتم إھابھا فدبغتموہ فانتفعتم بہ؟ )) [1] (متفق علیہ) و اللّٰه أعلم۔ [عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی باندی کو ایک صدقے کی بکری دی گئی، پھر وہ مرگئی ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو فرمایا: تم نے اس کا چمڑا کیوں نہیں اتار لیا پھر اس کو رنگ کیوں نہیں لیا کہ تم اس سے کوئی فائدہ اٹھا لیتے؟] 3۔ یہ طریقہ اسلامی طریقہ نہیں ہے، بلکہ غیر اہلِ ملت کا ہے اور تشبہ غیر اہلِ ملت کے ساتھ جائز نہیں ہے۔ لحدیث: (( من تشبہ بقوم فھو منھم )) [2] [جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا] 4۔ ایسی تجارت ناجائز ہے، زید جو بکر سے ہر مہینے میں روپے کے معارضہ میں فی من ایک روپیہ لیتا ہے، سود میں داخل ہے اور سود حرام ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [البقرۃ: ۲۷۵] و اللّٰه تعالیٰ أعلم 5۔ زید کے بیان مندرجہ سوال کی درستی مجھے معلوم نہیں ہے۔ اگر زید اپنے درستی بیان کے ثبوت میں کوئی حدیث مع سند پیش کرے تو اس حدیث مع سند کو بھیج دیجیے گا، اس پر غور کر لیا جائے گا۔ اگر حدیث مذکور بیان مذکور کے ثبوت میں سچ ثابت ہوئی تو آپ کو اطلاع دی جائے گی۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۵؍ شعبان) کفار کے میلوں میں سامان بیچنے کے لیے جانا: سوال: 1۔ اکثر مسلمان تجار اپنا مالِ تجارت واسطے فروخت کرنے کے کفار کے میلوں میں و نیز مسلمانوں کے میلوں میں جو پرستش گاہیں مقرر ہیں ، لے جاتے ہیں اور نیت ان کی صرف فروخت کرنے مال سے ہے نہ اور کام سے۔ آیا ان کا مال لے جانا درست ہے یا نہیں ؟ 2۔ اکثر تجارتوں میں دستور ہے، مثلاً: کپڑا جوتا وغیرہ کی بیع ہوجانے کے بعد مشتری بائع سے ایک پیسہ تھان یا پیسہ جوڑا کاٹ لیا کرتا ہے اور بائع جانتا ہے کہ جس قدر پر بیع ہوئی ہے، اس سے ایک پیسہ مجھ کو کم ملے گا اور بائع و مشتری سے یہاں مراد کاریگر و سوداگر ہیں ، یعنی مشتری سوداگر اور بائع بننے والا تھان کا یا جوتا بنانے والا نہ کہ عام بائع اور مشتری، کیونکہ عام لوگوں میں پیسہ نہیں کٹتا۔ آیا یہ کاٹنا پیسہ کا درست ہے یا نہیں ؟
Flag Counter