Maktaba Wahhabi

661 - 728
ہے، ہبہ دین کہا جاتا ہے اور دونوں سے ایک ہی مطلب سمجھا جاتا ہے۔ دیکھیے معافی دین مہر کے مقدمہ میں اگر ایک گواہ ابرائِ دین کا لفظ کہے اور دوسرا گواہ ہبہ دین کا لفظ تو دونوں کے بیان گو لفظاً مختلف ہیں ، مگر معناً مختلف نہیں ، مطلب دونوں کا ایک ہی ہے۔ ابرائِ دین کا مطلب دین کا مدیون کے ذمہ سے ساقط کر دینا ہے اور ہبہ دین کا مطلب بھی یہی ہے۔ اشباہ و نظائر میں ہے: ’’ہبۃ الدین کالإبراء منہ ۔۔۔ الخ‘‘ [ہبہ دین اس سے ابراء کی مانند ہے۔۔۔ الخ] حموی صفحہ مذکورہ میں ’’جامع الفصولین‘‘ سے منقول ہے: ’’ادعی الزوج إنھا وھبتني المھر وبرھن فشھد أحدھما أنھا أبرأتہ، والآخر أنھا وھبتہ تقبل للموافقۃ لأن حکم ھبۃ الدین سقوطہ، وکذا حکم البراء ۃ‘‘ اھو اللّٰه أعلم [خاوند نے یہ دعویٰ کیا کہ اس (میری بیوی) نے اپنا مہر مجھے ہبہ کر دیا ہے اور اس دعوے کی دلیل بھی پیش کر دی، ایک گواہ نے یہ گواہی دی کہ اس کی بیوی نے اس سے ابراء کر دیا تھا اور دوسرے نے گواہی دی کہ اس نے اس کو ہبہ کر دیا تھا، تو موافقت کی وجہ سے اس گواہی کو قبول کیا جائے گا، کیوں کہ قرض کا ہبہ اس کا ساقط کرنا ہے اور ابراء کا بھی یہی حکم ہوگا] 3۔ اس صورت میں ہبہ کے حقیقی معنی (تملیک) مراد نہ ہوں گے اور نہ مراد ہو سکتے ہیں ، کیونکہ میت میں کسی چیز کے مالک بننے کی صلاحیت ہی نہیں ، بلکہ جن چیزوں کا وہ بحالتِ حیات مالک تھا، اب بعد ممات ان چیزوں کا بھی مالک نہیں رہا، بلکہ وہ چیزیں اس کے مِلک سے نکل کر دوسروں کے ملک میں چلی گئیں ۔ ہاں اس صورت میں ہبہ سے مجازاً ابراء و اسقاطِ حق مراد ہوگا، کیونکہ میت میں اس بات کی صلاحیت ضرور ہے کہ اگر اُس پر کسی شخص کا کوئی حق آتا ہو اور وہ شخص اس حق کو میت کے ذمہ سے ساقط کر دے تو وہ حق میت کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا۔ فتاویٰ عالمگیری (۱/ ۴۴۶ مطبوعہ ہو گلی) ’’فصل عاشر في ہبۃ المہر‘‘ میں ہے: ’’امرأۃ المیت إذا وھبت المھر من المیت جاز کذا في السراجیۃ‘‘ و اللّٰه أعلم بالصواب [میت کی بیوی اگر مہر ہبہ کر دے تو یہ جائز ہوگا، سراجیہ میں ایسے ہی بیان ہوا ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مدرسہ احمدیہ آرہ) ہندو مہاجن کا عطیہ مسلمان یتیموں پر خرچ کرنا: سوال: غازی پور کے مسلمانوں نے ایک یتیم خانہ کھولا ہے، جس میں سات یتیم پرورش پاتے ہیں ۔ بابو موتی چند رئیس و مہاجن بنارس نے ایک رقم عطیہ کی یتیم خانہ میں بھیجی۔ ایک صاحب نے اس کے لینے میں اس بنا پر اعتراض کیا کہ وہ مہاجنی میں سود لیتے ہیں ، ان کا مال حرام ہے، یتیم خانہ میں اس کو قبول کرنا نہیں چاہیے۔ لوگوں کی عموماً یہ رائے ہے کہ اُس مال کا قبول کر لینا جائز ہے، اس بارے میں صحیح رائے کیا ہے؟ از غازیپور۔ جواب: اس بارے میں صحیح رائے یہی ہے کہ اُس مال کا قبول کر لینا جائز ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter