Maktaba Wahhabi

323 - 660
کرنااورنمازکولمباکرنایہ آدمی کی فقاہت(دین کی سمجھ)کی علامت ہے، بہرحال صحیح حدیث سےیہی معلوم ہوتاہےکہ خطبہ اورنمازسب زوال کےبعدہواکرتےالبتہ زوال ہوتےہی تشریف لاتےالبتہ جمعہ کےدن زوال سےقبل اوراستواءسراج کےوقت بھی نوافل پڑھنےکی اجازت ہےجیساکہ احادیث سےنمایاں طورپرمعلوم ہوتاہے۔ (٢)۔۔۔۔جمعہ کےدن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخطبہ ونمازسےکافی پہلےمسجدمیں آنےکی ترغیب دلائی ہےاوربڑےاجروثواب کی خبردی ہےاورفرمایاکہ آدمی کومسجدمیں سویرےآناچاہیےاورنوافل پڑھتارہے، پھرجب امام آئےتوچھوڑکرتوجہ سےخطبہ سنےلہٰذاخطبہ سےقبل جتنےکچھ نوافل پڑھےگئےوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی سنت ہوئےاورخطبہ کےدوران بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہی حکم وارشادہےکہ آپ میں سےجب کوئی مسجدمیں آئےاورامام خطبہ دےرہاہوتواس کوبھی بیٹھنےسےپہلےدورکعت پڑھنی چاہیئں اوران کولمبانہ کرےبلکہ تخفیف کرےلہٰذایہ بھی قولی سنت ہی ہوئی ہے۔والله اعلم جمعہ میں دواذانیں سوال:کیاجمعہ کےدن خطبہ کےوقت جواذان دی جاتی ہےاس سےپہلےاذان دیناجائزہےیانہیں تاکہ لوگوں کوکچھ جلدی اطلاع ہوجائےتاکہ جمعہ کےخطبہ ونمازکےلیےتیارہوجائیں؟ الجواب بعون الوھاب:خطبہ کےوقت(جمعہ کےدن)جواذان دی جاتی ہےاس سےپہلےبھی اذان دیناجائزہے۔دلیل اس کی وہ حدیث ہےجوبخاری شریف میں’’باب الاذان عندالخطبة‘‘كے تحت میں مذکورہے۔ملاحظہ فرمائیے! ((عن الزهري قال سمعت السائب بن يزيديقول ان الاذان يوم الجمعة كان اوله حين يجلس الامام يوم الجمعة علي المنبر في عهدرسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم وابي بكروعمررضي اللّٰه عنه كان في
Flag Counter