یعنی جس زمین کو سیراب کرنے کے لیے پانی لانے میں زیادہ مشقت اور تکلیف درکارہےاس کی پیدارپربیسواں حصہ اورجس زمین کوآبادکرنےکے لیے پانی لانے میں زیادہ مشقت ومحنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ پانی ازخوداوپرسےاترتاہے اورزمین کو سیراب کردیتا ہےمگراس کےبرعکس جس زمین کو سخت محنت جھیل کرانسان سیراب کرتا ہے توشریعت نے اس کی محنت پر رحم وکرم کرتے ہوئے اس پر زکوۃ بھی کم رکھی ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں نہروں والے پانی کا سسٹم نہیں تھا بلکہ جانوروں کے ذریعے پانی نکال کرزمینیں سیراب کی جاتی تھیں اس لیے آپ نے ان کے متعلق ارشادفرمایامگرعلماء حقہ نہروں والے پانی سے سیراب کی گئی زمینوں کو ان کے ساتھ ملحق سمجھا ہے، کیونکہ ان میں بھی سخت محنت کرنی پڑتی ہےجیساکہ نہرکی کھدائی ، صفائی اورآبیانہ دیناجس کا مطلب ہے کہ پانی پیسوں کےساتھ خریدناپڑتا ہے لہٰذا اگراتنی محنت اورخرچ کے بعدبھی اس پر اتنی زکوۃ مقررکی جائے توپھرآبادگاروں کے لیے تکلیف مالایطاق بن جائے گی اورشریعت کسی پر بھی اس کی طاقت سےزیادہ بوجھ نہیں ڈالتی:
﴿لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ:٢٨٦)
’’اللہ تعالیٰ کسی پربوجھ نہیں ڈالتامگراس کی طاقت کے مطابق۔ ‘‘
لہٰذا ایسی زمینوں پربیسواں حصہ زکوۃ لاگوہوگی کافی عرصہ پہلے مولاناحافظ عبداللہ صاحب روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سےتنظیم اہلحدیث اخباربھی ایسافتوی دلائل کے ساتھ شائع ہواتھاوہ مضمون میں نے پڑھاتھاممکن ہے کہ دفترتنظیم اہلحدیث سےوہ شمارہ مل جائے۔ بہرحال علماء اہلحدیث کے محققین موجودہ سرشتہ زمینوں پربھی نصف عشربیسواں حصہ زکوٰۃ سمجھی ہے اوردلائل سے بھی یہ مسلک صحیح سمجھ میں آتا ہے۔
و اللّٰہ اعلم بالصواب
زکوۃ کے مال سےلائبریری بنانا
سوال:کیازکوٰۃ کی رقم کسی ایسے ادارہ یا لائبریری میں دی جاسکتی ہے جہاں سے
|