Maktaba Wahhabi

325 - 246
زکاۃ کرایہ پردیے گئے مکانات کی مالیت پریا کرایہ پرہوگی؟ سوال: ایک شخص کےپاس کچھ مکانات ہیں جوکہ کرایہ پردیے گئے ہیں،زکاۃ آیا ان کےکرائے پرنکالی جائے گی یاان مکانات کی کل مالیت پر؟ جواب: زکاۃ ان مکانات کےکرایہ پرنکالی جائے گی،اس لیے کہ یہ مکان خریدوفروخت کےلیے نہیں رکھے کئے بلکہ بغرض آمدنی رکھے گئےہیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ ﴾ ’’اےایمان والو! خرچ کرو اپنی پاک کمائی میں سے۔‘‘[1] عربی میں کسب اوراکتساب اصل مال سےحاصل ہونے والی آمدنی کوکہا جاتا ہے چونکہ صورت مذکورہ میں اصل مال تو مکانات ہیں لیکن ان سےآمدنی کرائے کی شکل میں حاصل ہوتی ہے،اس لیے ایک سال گزرجانے کےبعد جوکچھ آمدنی حاصل ہواس پرزکاۃ ادا کی جائے، بشرطیکہ یہ آمدنی بقدرنصاب ہوچکی ہو۔ تعمیر مساجد میں مال زکاۃ خرچ کرنا جواباً عرض ہےکہ زکاۃ کےآٹھ مصارف سورہ توبہ میں آیت نمبر60 میں بتائے گئےہیں،جن میں مساجد یاخیراتی کام شامل نہیں ہیں لیکن زکاۃ کاایک مصرف (فی سبیل اللہ) مفسرین وفقہاء کی طبع آزمائی کاموضوع رہاہے۔ فی سبیل اللہ سےکیا مراد ہے؟
Flag Counter