Maktaba Wahhabi

100 - 104
ندوۃ العلماء کا ایک اجلاس: مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنوکا ایک اجلاس ۳ اور ۴ فروری ۱۹۶۷ ؁ء کو منعقد ہوا جس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء اور نمائندہ شخصیتوں نے شرکت کی۔اسمیں مسئلہ’’رؤیتِ ہلال‘‘ کے تمام پہلوؤں پر غور اور فیصلے کیے گئے جن میں سے ہی یہ بھی تھا کہ بلادِ قریبہ وہ شہر ہیں جنکی رؤیت میں عادۃً ایک دن کا فرق نہیں پڑتا(یعنی ایک ہی شام چاند نظر آجاتا ہے) اور فقہاء نے ایک ماہ کی مسافت جو پانچ چھ سو میل ہوتی ہے اتنی مسافت پر واقع شہروں کو بلادِ بعیدہ قرار دیا ہے جن کی رؤیت الگ الگ سمجھی جائیگی(کہ ایک جگہ چاند نظر آسکتا ہے اور دوسری جگہ نہیں ) اور اس سے کم مسافت کے شہروں کو بلادِ قریبہ قرار دیا گیا ہے جن میں سے ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے کافی ومعتبر ہوگی۔اور یہ بھی طے کیا گیا کہ مجلس ایک ایسے چارٹ کی ضرورت سمجھتی ہے جس سے معلوم ہوجائے کہ مطلع(چاند طلوع ہونے یا اسکے نظر آنے کا مقام)کتنی مسافت پر بدلتا ہے اور کن کن ملکوں کا آپس میں مطلع ایک ہے۔اور پاک وہند کے بیشتر حصوں اور بعض قریبی ملکوں مثلاً نیپال وغیرہ کا مطلع ایک ہے۔علمائِ پاک وہند کا عمل ہمیشہ اسی پر رہا ہے اور غالباً تجربہ سے بھی یہی ثابت ہے ۔ان ملکوں کے شہروں میں اسقدربُعدِ مسافت نہیں ہے کہ مہینہ میں ایک دن کا فرق پڑتا ہو۔البتہ مصروحجاز جیسے ملکوں کا مطلع پاک وہند سے دور ہونے کی وجہ سے الگ ہے لہٰذا ان میں پاک وہند میں طلوعِ ماہتاب(طلوعِ ہلال) میں ایک دن کا فرق واقع ہوجاتا ہے لہٰذا ان ملکوں کی رؤیت پاک وہند والوں کے لیے لازم نہیں ہے۔[1] برصغیر کے معروف عالم مولانا محمد عطاء اللہ حنیف ؒ بھوجیانی نے لکھا ہے: ’’ ہندوستان میں وارنگل وسلی گوری اور مدراس ومیسور کے مابین بھی یہی اختلاف ممکن ہے (جو
Flag Counter