Maktaba Wahhabi

103 - 104
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے: کبھی یہ صورت بھی پیش آسکتی ہے کہ ہمارے ان خلیجی یا دوسرے ممالک میں رہنے والوں میں سے کسی نے اپنی مقامی رؤیت کے حساب سے روزہ رکھنا شروع کیا اور عید الفطر سے چند دن قبل پاکستان یا انڈیا وغیرہ چلا گیا تا کہ اپنے عزیزوں کے ساتھ مل کر عید کی خوشیاں مناسکے جبکہ وہاں عموماً روزوں کا آغاز ایک دن بعد ہوتا ہے۔ اسکے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے چند روزے اپنے ملک میں رکھنے کے بعد وہ یہاں عرب ممالک میں آجائے جبکہ یہاں والوں نے اس سے ایک دن پہلے روزہ رکھا تھا۔ان ہردو صورتوں میں سے کبھی تو کسی کے دوسروں کے ساتھ رہنے سے صرف اٹھائیس(۲۸) روزے ہی ہوپاتے ہیں اور کبھی اکتیس(۳۱) بھی ہوسکتے ہیں جبکہ نہ یہ صحیح ہے اور نہ ہی وہ درست۔ پس چہ باید کرد؟ مذکورہ دونوں صورتوں کے نتیجہ میں پیش آمدہ سوال کا جواب یہ ہے کہ: ’’اگر کوئی شخص کسی جگہ مقامی رؤیت کے حساب سے روزہ رکھنا شروع کرتا ہے۔پھر وہ کسی ایسے ملک کی طرف سفر کرجاتا ہے جہاں کے رہنے والوں نے ایک دن پہلے روزہ رکھنا شروع کیا تھا تو وہ شخص(انتیس روزے پورے ہوجانے کی صورت میں ) انہی کے ساتھ عید الفطر کرلے اور انکے پہلے روزے کی جگہ اسے ایک دن کا روزہ قضاء کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔‘‘ اگر وہ کسی ایسے ملک کی طرف سفر کرجاتا ہے جہاں کے لوگوں نے اس شخص سے ایک دن بعد میں روززہ رکھنا شروع کیا تھا تو اسکے بارے میں مختلف اقوال ہیں : ’’اگر وہ کہیں کہ وہ اکیلا ہی (ایک روزہ پہلے رکھ چکنے کی وجہ سے) عید الفطر کرلے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اکیلا آدمی چاند دیکھ لیتا ہے تو وہ اکیلا ہی مشہور قول کے مطابق افطار(عید الفطر) نہیں کرسکتا۔اور اگر وہ انکے ساتھ ہی روزے رکھتا رہے تو اسکے روزے(وہاں تیس
Flag Counter