Maktaba Wahhabi

19 - 104
ہیں اور اگر بحری یا بری راستوں سے وادیٔ حجاز اور حرمین شریفین تک پہنچنے اور حج ِ بیت اللہ میں صَرف ہونے والے کُل وقت کا اندازہ لگائیں تو بھی کھینچ تان کر یہ دوتین ماہ ہی بنتے ہیں، جبکہ یہ حج بھی ایک مسلمان کی زندگی میں اس پر صرف ایک ہی مرتبہ فرض ہے لیکن روزہ۔۔۔۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو کہ سنِ تمیز ورُشد سے لیکر تادم ِواپسیں ہر مسلمان پر ہر سال رمضان المبارک کا پورا مہینہ فرض ہے،جیساکہ سورۂ بقرہ، آیت: ۱۸۵ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ} ’’تم میں سے جو شخص ماہِ رمضان کو(مقیم وتندرست ہونے کی حالت میں )پائے وہ اس ماہ کے روزے رکھے۔ ‘‘ اس ارشاد کی تعمیل ہر سال ایک ماہ یعنی کم ازکم تین سو ساٹھ(۳۶۰) گھنٹے کیلئے مسلمان سے اسلامی قواعد وضوابط کی پابندی سے ہی ممکن ہے، کیونکہ اگر ایک روزہ کا وقت صرف بارہ(۱۲) گھنٹے شمار کیا جائے ،تو تیس(۳۰) دنوں کے مہینہ کی صورت میں حالت ِ روزہ کے اتنے(۳۶۰) گھنٹے ہی بنتے ہیں۔ اور یہ طویل ریاضت انسان میں تطہیر ِ قلب،تصفیۂ باطن،تہذیب ِ نفس اور ایسے اوصاف ِ حمیدہ و محاسن ِ جلیلہ پیدا کردیتی ہے،جو حقیقتاً بلند اخلاقی کا طرۂ امتیاز ہیں،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روزہ انسان میں تقویٰ و پرہیزگاری کی صفت پیدا کرتا ہے،جو سب سے قیمتی چیز ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے بھی روزے کا فلسفہ{لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}ہی بتایا ہے۔’’تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘ اندازِ تربیّت: ماہِ رمضان اخلاقی وروحانی تربیت وٹریننگ کا مہینہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے روزے کے آداب اور قواعد وضوابط کو پیش نظر رکھنا ہوگا،مثلاً صحیح بخاری ومسلم،ابوداؤد ونسائی اور موطا امام مالک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ
Flag Counter