Maktaba Wahhabi

81 - 104
یہ ظرف ہوتا تو آگے:{اِلَّا قَلِیْلاً }کی ضرورت نہ ہوتی۔[1] یہ علّامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی اس موضوع سے متعلقہ بحث کا خلاصہ ہے جوظاہر ہے کہ اصل کے پائے کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا کیونکہ جو کمال علّامہ موصوف کے کلام میں ہے اسکا خلاصہ تیار کرناکارے دارد،اِسی لیے ہم اصل کتاب کے ص ۱۰۳تا ۱۰۵ کے مطالعہ کا مشورہ دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ خلاصۂ کلام: سابقہ گزارشات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کراہت کی کوئی وجہ نہیں۔متعلقہ حدیث ضعیف ہے لہٰذا ناقابلِ استدلال ہے۔اور قرآنِ کریم میں رمضان کے ساتھ لفظ شھر کی آمد اور حدیث میں اسکے حذف کے متعدد فوائد ہیں جنکا خلاصہ ذکرکردیا گیا ہے۔ الصّوم(روزہ) کا لغوی معنیٰ: روزہ جسے عربی زبان میں الصّوم کہا جاتا ہے،اسکا لغوی معنیٰ الامساک یعنی کسی کام سے رک جانا ہے۔علّامہ رشید رضا مصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر المنار میں ،امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں،امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیل الاوطار میں صوم کا یہی معنیٰ ذکر کیا ہے۔[2] ماہرین لغتِ عربی میں سے ابوعبیدہ نے اس لفظ کے لغوی معنیٰ کی مزید وسعت بیان کرتے ہوئے کہا ہے: (کُلُّ مُمْسِکٍ عَنْ طَعَامٍ اَوْکَلَامٍ اَوْسَیْرٍ فَھُوَ صَائِمٌ) [3]
Flag Counter