Maktaba Wahhabi

290 - 373
(9)۔گزشتہ بحث سے واضح ہوا کہ زمین سے نکلنے والی متعدد اشیاء یہ ہیں:1۔اناج اور پھل۔2۔مختلف معدنیات۔3۔شہد۔4۔اور زمانہ جاہلیت کی مدفون اشیاء۔یہ تمام انواع اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں داخل اور شامل ہیں: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ" "اے لوگو جو ایمان لائے ہو!تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کروجوتم کماتے ہو اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین میں سے نکالی ہیں۔"[1] اورارشاد ہے: "وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ " "اور اس میں جو(اللہ کا) حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو۔"[2] (10)۔زکاۃ زمین کی اس پیداوار میں ہے جس کو ماپا(یا وزن کیا) جاتا ہو اور ذخیرہ ہوسکے۔اگر اس کو نہ ماپا جاتا ہو اور نہ ذخیرہ کیا جاتا ہو تو اس پر زکاۃ فرض نہیں ہے،مثلاً:اخروٹ،سیب،خوبانی،بہی اور انار وغیرہ۔اسی طرح سبزیوں اورترکاریوں ،مثلاً:مولی،لہسن،پیاز،گاجر،تربوز،خربوزہ،کھیرا اوربینگن وغیرہ میں زکاۃ نہیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لَيْسَ فِي الْخَضْرَوَاتِ صَدَقَةٌ " ’’سبزیوں میں زکاۃ نہیں۔‘‘ [3] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’پانچ وسقوں سے کم میں زکاۃ نہیں۔‘‘ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے نکلنے والی اشیاء میں ماپنے کے قابل ہونا اور ان کا ذخیرہ ہونے کے لائق ہونایہ دونوں شرطیں معتبر ہیں،لہذا جن اشیاء کوماپا تولانہ جاسکے یا انھیں ذخیرہ نہ کیا جاسکے ان میں زکاۃ بھی نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء نے ایسی ہی اشیاء کو نظر انداز کردیا تھا،حالانکہ انھیں وہاں بویا اور کاشت کیا جاتا تھا۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’کھیرا،ککڑی،پیاز،خوشبو دار نباتات وغیرہ میں زکاۃ نہیں،البتہ انھیں فروخت کیا جائے اور ان کی قیمت پر ایک سال بیت جائے تو ان کی قیمت میں زکاۃ ہے۔‘‘ [4] نقدی مال میں زکاۃ کابیان جان لیجئے!نقدی مال سے مراد سونا،چاندی،کرنسی،سونے اور چاندی کے زیور،ڈلی اور ان سے بنے ہوئے برتن وغیرہیں۔
Flag Counter