Maktaba Wahhabi

302 - 516
اس میں سے کچھ نہ لو۔"[1]کے ساتھ منسوخ ہے۔ خلع کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ مالی معاوضہ دیا جائے اور معاوضہ دینے والا ایسا ہو جس کے لیے مالی تصرف شرعاً درست ہو۔ اور خلع ایسے خاوند کی طرف سے ہو جس کا طلاق دینا صحیح ہو اور بیوی کو ناحق تنگ نہ کرے کہ وہ معاوضہ دے کہ خلع لینے پر مجبور نہ ہو جائے۔ اور خلع دینے کے لیے خلع کا لفظ استعمال کیا جائے۔ اگر خاوند نے صراحتاً طلاق کے الفاظ یا کنایتاً طلاق کے الفاظ نیت طلاق کے ساتھ استعمال کیے تو وہ طلاق ہو گی خلع نہیں جس میں اسے رجوع کا حق نہیں ،البتہ وہ عقد جدید کے ساتھ اسے دوبارہ نکاح میں لا سکتا ہے۔ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے کی کوئی شرط و پابندی نہیں بشرطیکہ اس نے پہلے دو طلاقیں نہ دی ہوں۔ اگر اس نے خلع، فسخ نکاح یا فدیے کے الفاظ کہے اور طلاق کی نیت نہ کی تو نکاح فسخ ہو گا طلاق شمار نہ ہوگی اور اس سے طلاق کی گنتی میں کمی نہ ہو گی ۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی نقطۂ نظر ہے۔ ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: "الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ" "طلاق رجعی دو مرتبہ ہے۔"[2] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ " ’’ پھرجو وہ اپنی رہائی پانے کے لیے کچھ دے ڈالے اس میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ [3] پھر آگے فرمایا: "فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ" ’’ پھر اگر وہ اس کو(تیسری ) طلاق دے دے تو اب اس کے لیے وہ (عورت ) حلال نہیں جب تک کہ وہ اس کے سوا دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے۔‘‘ [4] یہاں اللہ تعالیٰ نے دوطلاقوں کا ذکر کر کے خلع کا بیان کیا، پھر اس کے بعد طلاق کا ذکر کیا۔اگر خلع طلاق ہوتی تو آخری طلاق چوتھی طلاق قرار پاتی اور یہ درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ طلاق کے احکام طلاق کے لغوی معنی ہیں:"چھوڑنا آزاد کرنا"اور اسی سے ہے"طلقت الناقة"اونٹنی آزاد ہوگئی"یہ اس وقت
Flag Counter