اگر اپنی مرضی اور اختیار سے نشہ آور اشیاء استعمال کرنے کی وجہ سے کسی شخص کی عقل جاتی رہی تو اگر ایسے شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اہل علم میں اختلاف ہے کہ طلاق مؤثر ہوگی یا نہیں؟ ایک قول کے مطابق طلاق واقع ہو جائے گی۔ ائمہ اربعہ کے علاوہ اہل علم کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے۔
اگر کسی کو ڈرادھمکا کر طلاق دینے پر مجبور کیاگیا اور اس نے جبر و ظلم کے خوف سے بیوی کو طلاق دے دی تو اس کی طلاق واقع اور مؤثر نہ ہو گی کیونکہ حدیث میں ہے:
"لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ""جبرواکراہ میں نہ طلاق ہے نہ آزادی۔"[1]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإيمَانِ "
"جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے، سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر (مطمئن و) برقرار ہو۔"[2]
واضح رہے کفر طلاق سے کہیں بڑھ کر ہے۔جب جبرواکراہ میں کفر کی معافی ہے اور شمار میں نہیں آتا تو طلاق بالاولیٰ معاف ہے اور شمار نہ ہوگی، البتہ جن صورتوں میں طلاق دینے پر مجبور کرنا جائز ہے، ان صورتوں میں جبری طلاق واقع ہو جائے گی ،مثلا:ایلاء کرنے والا شخص چار ماہ کے بعد بیوی سے تعلقات بحال نہ کرے تو اسے بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
اگر غصے کی کیفیت یہ ہو کہ آدمی کو اپنی بات سمجھ میں آتی ہوتو غصہ کی اس حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی۔ اگر غصہ اس قدر شدید ہے کہ اسے علم ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو اس حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
مذاق میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے کیونکہ طلاق بولنے میں اس کا قصدوارادہ شامل ہے اگرچہ وقوع طلاق کا ارادہ نہ تھا۔ واللہ اعلم۔
مسنون اور غیر مسنون طلاق
مسنون طلاق سے مراد ایسی طلاق ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو مد نظر رکھ کر دی جائے۔
|