Maktaba Wahhabi

497 - 516
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ان شرائط کا حتی الامکان اعتبار کیا جانا چاہیے جو زیادہ علم ،تجربہ اور معرفت والا ہو اس کو دوسروں پر ترجیح ہونی چاہیے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی دلالت بھی یہی ہے کہ دو فاسقوں میں سے جو زیادہ نفع و فائدے والا اور کم خرابی والا ہو اس کو والی (سربراہ) بنانا چاہیے۔‘‘[1] انصاف پسند اور مذہب کی معرفت رکھنے والے مقلد کو بھی قاضی یا صاحب امر بنایا جا سکتا ہے ورنہ لوگوں کے بہت سے کام معطل رہیں گے۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ مفتیوں کے طبقات ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’مجتہد وہ ہے جو کتاب و سنت کا علم رکھتا ہو۔مجتہد بعض امور میں اگر کسی کی تقلید کرے گا تو یہ عمل اس کے مجتہد ہونے کے منافی نہ ہو گا۔ ہرمجتہد اور امام نے بعض مسائل میں اپنے سے بڑے عالم کی تقلید کی ہے۔‘‘ [2] قاضی کے اوصاف کا بیان اس باب میں ان اوصاف اور خوبیوں کو بیان کرنا مقصود ہے جن سے ایک قاضی کو متصف ہونا لازمی ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قاضی میں سب سے اعلیٰ اور اچھی خوبی یہ ہے کہ وہ غصے میں نہ آئے اور کسی فریق سے عنادو کینہ نہ رکھے۔" امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قاضی کے لیے تین چیزوں کا جاننا ضروری ہے۔ ان کے بغیر قاضی کا فیصلہ دینا درست نہیں ،یعنی دلائل، اسباب اور شہادتوں کی معرفت اور ان کا علم کیونکہ دلیل سے اسے شرعی حکم معلوم ہوگا۔اسباب سے اسے معلوم ہوگا کہ زیر غور مقدمے میں یہ حکم لگتا ہے یا نہیں اور گواہیوں سے اختلاف کے وقت فیصلہ کرنا ممکن ہوگا۔ اگر ان تین میں سے کسی ایک میں غلطی ہوگئی تو فیصلہ کرنے میں غلطی واقع ہو جائے گی۔"[3] قاضی کے لیے ضروری ہے کہ وہ درشت نہ ہو لیکن ہر اعتبارسے مضبوط ہوتا کہ ظالم اس سے کوئی غلط طمع نہ رکھے، نیز وہ حلیم الطبع ہو اسے چاہیے کہ فیصلے میں کمزوری نہ دکھائے تاکہ صاحب حق اس سے خوف نہ کھائے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"حکمرانی کرنے کے لیے دو چیزیں رکن کا درجہ رکھتی ہیں، یعنی قوت اور امانت ،لہٰذا قاضی کو چاہیے کہ وہ حلیم ہوتا کہ کسی فریق کے بیان پر غصے میں نہ آئے کہ صحیح فیصلہ دینے کے لیے رکاوٹ
Flag Counter