Maktaba Wahhabi

508 - 516
"اور جب تقسیم کے وقت قرابت داراور یتیم اور مسکین آجائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انھیں بھی دےدواور ان سے(نرمی سے) بات کرو۔"[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "الشُّفْعَةُ فِيمَا لَمْ يُقْسَمْ" "حق شفعہ اس چیز میں ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔"[2] علاوہ ازیں حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کیا کرتے تھے ۔ اس مسئلے پر اجماع کا ہونا متعدد علماء سے منقول ہے۔ مزید برآں انسان کی ضرورت اس مسئلے کی متقاضی ہے کیونکہ جن لوگوں کا حق ایک مشترک چیز سے متعلق ہے اس کی وصولی تقسیم کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ تقسیم کا مطلب ہے، ایک مشترک چیز میں جس شخص کا جو حصہ ہے اسے الگ الگ کر دینا۔ تقسیم کی دو قسمیں ہیں: (1)رضا مندی کی تقسیم (2)زبردستی کی تقسیم۔ رضا مندی کی تقسیم ایسی تقسیم جس میں تمام شرکاء کا متفق ہونا ضروری ہو ان کی رضامندی کے بغیر تقسیم جائز نہ ہوگی۔ ایسی تقسیم میں بعض دفعہ کسی کو تھوڑا بہت نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کسی کو مشترک چیز میں اس کے حصے کے بدلے میں معاوضہ لینا یا دینا پڑتا ہے۔ ایسی تقسیم عموماً وہاں ہوتی ہے جہاں چھوٹے مکان یا تنگ دکانیں ہوں یا ایسی زمین جس کے حصے عمارت یا درختوں کی وجہ سے مختلف ہوں یا ایک حصے دار کسی خاص حصے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہو۔ ایسی مشترک شے کی تقسیم میں تمام شرکاء کا اتفاق اور ان کی رضا مندی لازمی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ " "نہ نقصان پہنچاؤ اور نہ نقصان اٹھاؤ۔"[3] روایت کے عمومی الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جس تقسیم میں تھوڑا بہت نقصان برداشت کرنا پڑے اس میں تمام شرکاء کی رضامندی ضروری ہے۔ یہ تقسیم ایسی بیع کے حکم میں ہےجس میں شے کو کسی عیب کی وجہ سے واپس کر دیا جاتا ہے اور جس میں خیار مجلس یا شرط وغیرہ بھی داخل ہو۔ اگر کوئی تقسیم کو قبول نہ کرے تو اس پر زبردستی بھی نہیں کی جا سکتی، البتہ اگر کوئی ایک شریک
Flag Counter