Maktaba Wahhabi

65 - 516
(مرتہن) کے قبضے میں رکھی ہے۔جب گروی شے قرض خواہ کے پاس رہے اور وہ اس کا دودھ نہ دوہے تو اس کا فائدہ ضائع ہو گیا۔ عدل و انصاف اور قیاس اور راہن و مرتہن اور (گروی ) حیوان کے ساتھ خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ قرض خواہ سواری اور دودھ کا فائدہ حاصل کرے۔ یہ فائدہ اس کے عوض میں ہو گا جو اس نے چارہ وغیرہ ڈالا ہے اس میں راہن اور مرتہن دونوں کی مصلحتوں کو جمع کیا گیا ہے اور دونوں کو ان کا حق پہنچادیا گیا ہے۔"[1] بعض فقہائے کرام کی رائے ہے کہ رہن شے دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ قسم جس پر خرچ ہوتا ہے اور دوسری وہ قسم جس پر خرچ نہیں ہوتا۔ جن اشیاء پر خرچ ہوتا ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ 1۔ جاندار جو دودھ دوہنے اور سواری کرنے کے قابل ہو، اس کا حکم تو اوپر بیان ہو چکا ہے۔ 2۔جو دودھ دوہنے اور سواری کے لائق نہ ہو، مثلاً:غلام یا لونڈی یہ نوع ایسی ہے جس سے انتقاع واستفادہ مالک کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہاں اگر مالک اجازت دے کہ اس پر خرچ کیا جائے اور اس کے عوض فائدہ اٹھائے تو مرتہن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ رہن اشیاء کی دوسری قسم کہ جس پر کچھ خرچ نہیں آتا مثلاً: مکان ، سامان وغیرہ اس میں بھی راہن کی اجازت کے بغیر فائدہ اٹھانا جائز نہیں ۔ البتہ جب رہن کی شے قرض کی رقم کے عوض میں لی گئی ہو تو انتقاع بالکل جائز نہ ہو گا جیسا کہ پچھلے باب میں گزر چکا ہے تاکہ وہ ایسا قرض نہ بن جائے جو نفع لانے والا ہو اور وہ سود بن جائے۔ ضمان (ضمانت ) کے احکام ضمان (ضمانت) قرض کی شرعی توثیق کی ایک صورت ہے۔ ضمان کا شرعی معنی" کسی دوسرے پر ثابت شدہ حق کی ذمے داری قبول کر لینا"ہے، مثلاً ضامن کہے:" جو کچھ تم نے فلاں شخص سے لینا ہے وہ میں تمھیں ادا کروں گا۔" ضمان کے باوجود اگر ضامن ادائیگی نہیں کرتا تو مضمون عنہ (جس شخص کی طرف سے ذمے داری قبول کی گئی ہے)ادائیگی کا ذمے دار ہو گا۔ قرآن مجید ،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت سے ضمان کا جواز ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ہے: "وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ " ’’جو اسے لے آئے اسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا اور اس (وعدے) کا میں ضامن ہوں۔‘‘ [2]
Flag Counter