Maktaba Wahhabi

444 - 647
’’أخبرنا عمرو بن زرارۃ قال:أخبرنا إسماعیل قال:حدثنا ابن عون قال:کان محمد یقول:الأرض عندي مثل مال المضاربۃ فما صلح في مال المضاربۃ،صلح في الأرض،ومالم یصلح في مال المضاربۃ لم یصلح في الأرض۔۔۔‘‘ الخ[1] [محمد بن سیرین فرماتے تھے کہ میرے نزدیک زمین مضاربت کے مال کی طرح ہے،جو کچھ مالِ مضاربت میں درست ہے،وہ زمین میں بھی درست ہے اور جو مالِ مضاربت میں درست نہیں،وہ زمین میں بھی درست نہیں ] حافظ ابن قیم زاد المعاد میں لکھتے ہیں: ’’في قصۃ خیبر دلیل علیٰ جواز المساقاۃ والمزارعۃ بجزء مما یخرج من الأرض من ثمر أو من زرع،فإنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم عامل أھل خیبر علی ذلک،واستمر علی ذلک إلی حین وفاتہ،ولم ینسخ البتۃ،واستمر عمل خلفاء الراشدین علیہ۔ولیس ھذا من باب المؤاجراۃ،بل من باب المشارکۃ،وھو نظیر المضاربۃ سواء،فمن أباح المضاربۃ،وحرم ذلک فقد فرّق بین متماثلین۔۔۔فإنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم دفع إلیھم الأرض علی أن یعملوھا من أموالھم،ولم یرفع إلیھم البذر،ولا کان یحمل إلیھم البذر من المدینۃ قطعاً،فدل علی أن ھدیہ عدم اشتراط کون البذر من رب الأرض،وأنہ یجوز أن یکون من العامل،وھذا کان ھدي خلفائہ من بعدہ‘‘ [قصہ خیبر میں زمین سے پیدا ہونے والے پھل یا غلے کے حصے کے ساتھ مساقات و مزارعت کے جواز کی دلیل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر کے ساتھ اسی پر معاملہ کیا اور یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک چلتا رہا،بالکل منسوخ نہیں ہوا اور خلفاے راشدین کے دور میں بھی اسی طرح چلتا رہا۔یہ مواجرات کے باب سے نہیں،بلکہ مشارکت کے باب سے ہے اور وہ بعینہٖ مضاربت کی طرح ہے،تو جس نے مضاربت کو مباح اور اسے حرام کہا،اس نے متماثلین میں تفریق کی۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنا پر زمین دی کہ وہ اپنے اموال کے ساتھ اس میں کام کریں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیج نہیں دیے اور نہ مدینے سے ان کو بیج روانہ کیے جاتے تھے۔یہ قصہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ ہے کہ بیج کا زمین کے مال کی طرف سے ہونا شرط نہیں ہے،لہٰذا یہ جائز ہے کہ وہ عامل کی طرف سے ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاے راشدین کا بھی یہی طریقہ تھا] کوئی شے فروخت کرنے کے بعد انکار کرنا: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ مسماۃ فہیمن و رحیمن و کریمن ونصیبن نے اپنا مکان غیر مقسومہ قیمتی
Flag Counter