Maktaba Wahhabi

494 - 647
أمرني فقسمت جلالھا وجلودھا،وقال سفیان:حدثني عبد الکریم عن عبد الرحمن بن أبي لیلیٰ عن علي رضی اللّٰه عنہ قال:أمرني النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أن أقوم علی البدن ولا أعطي منھا شیئاً في جزارتھا‘‘[1] رواہ البخاري۔ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا آپ نے بھیجا مجھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے،پس کھڑا ہوا میں قربانیوں پر،پس حکم کیا مجھ کو،پس تقسیم کیا میں نے گوشت ان کا،پھر حکم کیا مجھ کو،پس تقسیم کی میں نے جھولیں ان کی اور چمڑے ان کے۔سفیان رحمہ اللہ نے کہا:حدیث سنائی مجھ کو عبد الکریم نے مجاہد سے اور اس نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے،فرمایا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے:حکم کیا مجھ کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہ کھڑا ہوں میں قربانیوں پر اور نہ دوں ان سے قصائی کی اجرت میں کچھ۔‘‘ قربانی کے چمڑوں کو یا تو صدقہ کر دے،جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے ظاہر ہے،یا اس سے کوئی چیز استعمال کی مثل مشک،ڈول وغیرہ کے بنالے،بیچے نہیں،جیسا کہ حدیثِ مذکورہ بالا سے ظاہر ہے اور حنفی مذہب میں بھی یہی ہے: ’’ویتصدق بجلدھا،لأنہ جزء منھا أو یعمل منھا آلۃ یستعمل في البیت کالنطع والجراب والغربال وغیرھا‘‘[2] انتھیٰ ما في الھدایۃ۔واللّٰه أعلم بالصواب۔ [اس کی کھال کو صدقہ کر دے،کیوں کہ وہ بھی قربانی کا حصہ ہے،نیز اس سے گھر کے استعمال کی چیزیں بنا سکتا ہے،مثلاً:مشک،تھیلا اور چھلنی وغیرہ] حررہ:العاجز المھین:محمد یٰس الرحیم آبادي ثم العظیم آبادي،عفي عنہ۔ محمد عبد الحمید غفر اﷲ لہ محمد عبید اﷲ (مصنف تحفۃ الہند) فقیر محمد عبدالحق امیر الدین ۱۳۰۱ خادمِ شریعت رسول الاداب ابو محمد عبد الوہاب ۱۳۰۰۔ یہ جواب صحیح ہے۔حررہ:أبو العلی محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[3] کیا ایک گھر میں ہر متنفس کی طرف سے علاحدہ قربانی کرنی چاہیے؟ سوال:عید الاضحی میں قربانی ہر متنفس کی جانب سے کرنا چاہیے یا گھر بھر کے لیے ایک جانور کرنا کافی ہو گا؟ جواب:ہر متنفس کی طرف سے ایک ایک جانور کی قربانی ضروری نہیں ہے،ایک بکری بھی گھر بھر کی طرف سے کافی ہوسکتی ہے۔منتقیٰ الاخبار میں ہے:
Flag Counter