Maktaba Wahhabi

54 - 647
آپ کو کہا کہ لکھنؤ،دہلی یا ممبئی جا کر کسی ماہر چشم سے اپنی آنکھوں کا معائنہ کرائیں۔ہو سکتاہے آپ کی آنکھوں کی بصارت لوٹ آئے۔لیکن حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ آمادہ نہ ہوتے اور فرماتے:اللہ تعالیٰ سے اس کا جو اجر و صلہ قیامت کو ملے گا،وہ علاج سے کہیں بہتر ہے۔ اسی دور میں آپ ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ کی تیسری اور چوتھی جلد کی تکمیل میں مصروف تھے۔بصارت سے محروم ہونے کی وجہ سے تحفۃ الاحوذی کی تکمیل کاکام رک گیا تو شیخ عطاء الرحمن مرحوم (بانی و مہتمم دارلحدیث رحمانیہ دہلی) نے شیخ الحدیث مولانا ابو الحسن عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ کو تحفۃالاحوذی کی تکمیل کے لیے بہ طور معاون مبارک پور بھیج دیا،جنھوں نے حضرت مبارک پوری رحمہ اللہ کی پوری پوری معاونت کی اور تحفۃ الاحوذی پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ جب تحفۃ الاحوذی کی تکمیل ہو گئی تو حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ اس کی طباعت کے سلسلے میں دہلی تشریف لائے تو اپنے عزیز و اقارب اور اپنے تلامذہ کے اصرار پر آنکھوں کے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ڈاکٹر نے اپریشن کیا تو آنکھوں کی بینائی واپس آ گئی۔سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور عزیز و اقارب اور عقیدت مند بے حد خوش ہوئے۔ اعترافِ عظمت: امامِ حدیث حضرت مولانا محمدعبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کی نسبت یہ کہنا کہ وہ ایک بہت بڑے محدث،محقق،مورخ،نامور مدرس،بلند پایہ مصنف اور جیدعالمِ دین تھے،ایک عام اور معمولی سا بیان ہے،جس سے حضرت مولانا مبارک پوری کا اصل مقام و مرتبہ معین نہیں ہوتا اور نہ ان کا صحیح حق ادا ہوتا ہے۔ مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ جیسی جامع کمالات شخصیت کہیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔وہ اپنے کمالات میں ائمہ سلف کی یادگار تھے۔جملہ اسلامی علوم میں ان کی نظر بہت گہری اور وسیع تھی۔بعض علوم میں امامت و اجتہاد کا درجہ حاصل تھا اور ان میں اپنی علمی و دینی بصیرت اور تلاش و تحقیق کی ایسی یادگاریں چھوڑیں،جومدتوں علمی دنیا کی راہنمائی کا کام دیتی رہیں گی۔ان کا علمی مرتبہ اتنا بلند اور ان کی علمی خدمات کادائرہ اتنا وسیع،گوناگوں اور اتنا متنوع ہے کہ ان کے احاطے کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ تراجم علماے حدیث ہند کے مولف مولوی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی (المتوفی ۱۹۶۶ء) لکھتے ہیں: ’’فنِ حدیث میں آپ کا رتبہ معمولی نہ تھا،جیسا کہ آپ کی تصانیف سے ظاہر ہوتا ہے۔مولانا شوق نیموی حنفی نے نصرتِ تقلید میں کیا کیا نہ کیا کہ اسی شوق میں ’’بلوغ المرام من أدلۃ الأحکام‘‘ کے نہج پر ایک کتاب ’’آثار السنن‘‘ لکھ ڈالی،جس میں اپنے شعارِ تقلید کی حدیثیں چن چن کر بغیر تمیز غث و ثمین بھر دیں۔مولانا مبارک پوری نے شوق صاحب کی اس ندرت پر توجہ فرمائی اور ایک ضخیم کتاب ’’أبکار المنن في تنقید آثار السنن‘‘ (عربی)
Flag Counter