Maktaba Wahhabi

639 - 647
6۔اگر متوفی نے اپنے ترکے سے قرض چھوڑا یا بالکل قرض ہی چھوڑا اور ترکہ بالکل نہیں چھوڑا تو اس حالت میں متوفی کے ورثہ جس طرح ورثہ لینے کے شرعاً مستحق ہیں،اُسی طرح متوفی کا قرض ادا کرنا بھی اُن کے ذمے ہے یا نہیں اور بحالت نہ ہونے اُس کے ترکے کے قرض خواہ متوفی کے ورثا سے ازروئے شریعت دعویٰ کر کے اپنا قرض وصول کر سکتا ہے یا نہیں ؟ قرآن شریف اور احادیثِ نبویہ صحیحہ اور عمل درآمد خیر القرون سے اس کا مدلل جواب دیا جائے۔ بعض ورثا مفلس محتاج نادار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اپنے مورث متوفیٰ کے قرض ادا کرنے کی طاقت و وسعت نہیں رکھتے۔ جواب:1۔ایسے لوگ جو مذکورہ بالا رواج پر عمل کر رہے ہیں اور سمجھانے سے بھی باز نہیں آتے وہ ظالم ہیں اور قرآن مجید کے نافرمان،بلاشبہہ ایسے لوگ بعض آیات و احادیثِ مذکورہ استفتا کے مصداق ہیں۔ 2۔میرے نزدیک ایسے لوگ آیت:{لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔۔۔الخ} کے مصداق نہیں ہیں،ایسے لوگوں کو مذکورہ بالا رواج پر عمل کرنے والوں سے راہ و رسم،اتحاد اور محبت رکھنی اور اُن کی شادی و غمی میں شریک ہونے کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔بلاشبہہ اپنی ہمشیرہ حقیقی کو باپ کے ترکے سے میراث نہ دینے والا اور اپنی ہمشیرہ حقیقی سے بیاہ کرنے والا،یہ دونوں قرآن شریف کے نافرمان ہونے میں برابر ہیں،جیسے وہ قرآن کے ایک حکم کا نافرمان ہے،اسی طرح یہ بھی قرآن کے ایک حکم کا نافرمان ہے۔ 4۔جائز ہے۔ 5۔بلاشبہہ اس کا وبال ان لوگوں کی گردنوں پر ہو گا۔ 6۔مورث متوفی کا قرض ادا کرنا ورثہ کے ذمہ نہیں ہے۔پس بحالت نہ ہونے ترکہ کے قرض خواہ مورث متوفی کے ورثہ سے دعویٰ کر کے اپنا قرض وصول نہیں کر سکتا۔ھذا ما عندي واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمان المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] ورثا کو حق سے محروم کرنا درست نہیں: سوال:ایک شخص متوفی مرحوم نے اپنی کل جائداد ترکہ کو وقف اولاد کیا،اس تفصیل سے کہ ترکہ دو کوٹھیاں تھیں۔ایک کوٹھی کا چوتھا حصہ مساکین کے لیے وصیت کیا۔باقی تین حصے میں قرآن و حدیث کے موافق حصہ کر دیے اور وصیت کی کہ حقداران کرایہ تقسیم کیا کریں،مگر حق بیع و شرا ان کو حاصل نہیں۔ دوسری کوٹھی دونوں بیٹوں کو تقسیم کر دی اور وصیت کی کہ اس میں دونوں بھائی آباد رہیں،مگر تقسیم اور بیع فروخت
Flag Counter