Maktaba Wahhabi

108 - 430
باندھنا ہی سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو بھی روایات ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا پھر لا اصل ہیں۔‘‘[1] اب رہی یہ بات کہ اگر کوئی شخص محض سنی سنائی یا کسی اور وجہ سے سنت پر عمل نہیں کرنا چاہتا تو وہ اس کی مرضی ہے، لیکن بقول علامہ سندھی حنفی کے اس سنت سے انکار و نفرت تو نہ کریں اور جو لوگ ان مرفوع و صحیح احادیث کی بنا پر اس سنت پر عمل پیرا ہیں، انھیں ہدفِ طعن و تنقید تو نہ بنائیں۔ ناف سے اوپر، سینے کے پاس یا سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائلین و فاعلین کو بھی چاہیے کہ دلیل سے قائل کریں اور حکمتِ عملی و موعظہ حسنہ سے کام لیں۔ انتہا پسندی یا تشدّد پر اتر آنے کی ضرورت نہیں۔ نماز میں ہاتھوں کو باندھنا سنت ہے، فرض اور واجب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معروف مفتی علامہ ابنِ باز رحمہ اللہ کے بقول نماز تو ہاتھ چھوڑ کر پڑھنے والوں کی بھی ہو جاتی ہے۔[2] اگرچہ امام شوکانی نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں ہاتھ باندھنے کو واجب کہا ہے، ورنہ ترکِ افضل تو بہرحال ہے ہی، پھر اسے ذریعۂ نزاع نہیں بنانا چاہیے۔ راہِ اعتدال: اب رہی بات اختیار کرنے کی تو اگر کوئی اَرجح کو اختیار کرے تو وہ بھی اعتدال سے کام لے اور اگر کسی کو ضرور مرجوح ہی کو اختیار کرنا ہے تو وہ بھی اعتدال کی حدود ہی میں رہے۔ انتہا پسندی اور تشدّد کسی کے لیے بھی مناسب نہیں، جبکہ یہ چیز جانبین کے بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اسی سلسلے میں ایک انتہائی معتدل مزاج عالمِ دین شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی رحمہ اللہ آف گوجرانوالہ نے اپنی کتاب ’’تحریکِ آزادیِ فکر‘‘ میں لکھا ہے:
Flag Counter