Maktaba Wahhabi

109 - 430
’’بعض حضرات بے حد غلو کرتے ہیں اور یہ غلو دونوں طرف سے ہو رہا ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔ ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ (زیرِ ناف) کے قائلین بعض حضرات ہاتھوں کو اِس قدر لٹکا دیتے ہیں کہ ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ (زیرِ ناف) کی بجائے ’’فَوْقَ الْعَانَۃِ‘‘ (زائد بالوں کی مخصوص جگہ پر ہاتھ باندھنے) کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یعنی ’’زیرِ ناف‘‘ تک پہنچ جاتے ہیں اور ’’فَوْقَ السُّرَّۃِ‘‘ ( ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے) کے قائلین ’’تَحْتَ الْعُنُقِ‘‘ یعنی گلے کے قریب ہاتھ باندھتے ہیں۔ یہ صورتیں نہایت بدنما اور مکروہ محسوس ہوتی ہیں۔ رہا ادب اور تعظیم، وہ تو سینے پر ہاتھ باندھنے سے ہوتی ہے۔ ہاتھ نیچے لٹکا دینا تو ادب کے خلاف ہی نہیں بلکہ مکروہ معلوم ہوتا ہے۔ تلاوت کے وقت، سلام کے بعد ادب کے لیے عموماً ہاتھ سینے پر ہی رکھے جاتے ہیں، زیرِ ناف رکھتے آج تک ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘[1] مَرد و زَن کے ہاتھ باندھنے میں فرق؟: نماز میں ہاتھ باندھنے کے اس موضوع کو ختم کرنے اور ثنا وغیرہ کا ذکر کرنے سے پہلے ہم یہاں اس بات کی وضاحت کر دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘ (۱/ ۲۴۹) ایسے ہی ’’شرح نقایہ‘‘ اور ’’کبیری‘‘ (بحوالہ نمازِ مسنون، ص: ۳۲۰) نیز ’’السعایۃ حاشیۃ شرح وقایۃ‘‘ (بحوالہ ماہنامہ آثار) وغیرہ کی رُو سے احناف نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں بھی مَردوں اور عورتوں کے مابین فرق کیا ہے۔ مَردوں کے زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کے برعکس عورت کے لیے اسی بات کو سنت مانا ہے کہ وہ سینے ہی پر ہاتھ باندھیں۔
Flag Counter