Maktaba Wahhabi

182 - 430
ہاں کبھی کبھار اور شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات بھر قیام فرمایا ہو۔ چنانچہ ترمذی و نسائی و مسند احمد اور معجم طبرانی کبیر میں ایک حدیث ہے جس میں مذکور ہے کہ حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بدر کی رات نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پوری رات کو قیام کیا، یہاں تک کہ فجر ہوگئی۔ دوسری احادیث جن میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پوری رات قیام نہ کرنے کا ذکر آیا ہے، ان کی تائید سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات سے بھی ہوتی ہے، جن میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢﴾ نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ﴿٣﴾ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ﴾ [المزّمّل: ۱۔ ۴] ’’اے چادر اوڑھ کر سونے والے! رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑا۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ کر لو۔ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔‘‘ انہی آیات و احادیث کے پیشِ نظر اہلِ علم نے کہا ہے کہ ہمیشہ یا اکثر احوال میں پوری رات کا قیام مکروہ ہے، کیوں کہ یہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف فعل ہے۔ اگر ہمیشہ ساری رات کا قیام و عبادت افضل عمل ہوتا تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اسے اپناتے اور بہترین طریقہ تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی ہے۔ نمازِ وتر: قیام اللیل کے آخر میں نمازِ وتر کی باری آتی ہے، جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت متعدد احادیث میں ثابت ہے۔ 1- مثلاً سنن ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ دوسری رکعت
Flag Counter