Maktaba Wahhabi

187 - 430
تکبیر کے بعد ہی ہے۔‘‘[1] ایسے ہی ابن خزیمہ و نسائی اور مستدرک حاکم میں ہے: (( إِنَّہُ حَقٌّ وَسُنَّۃٌ )) ترمذی میں ہے: (( إِنَّہُ مِنَ السُّنَّۃِ اَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّۃِ )) اور نسائی میں (( سُنَّۃٌ وَحَقٌّ)) جیسے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ صحابی کا کسی امر کو سنت کہنا اس حدیث کے مرفوع ہونے کا پتا دیتا ہے۔[2] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما والی حدیث کی بعض روایات مثلاً نسائی میں سورۃ الفاتحہ کے بعد کوئی اور سورت پڑھنا بھی مروی ہے، جس کی صحت پر بعض علمانے کلام کیا ہے، لیکن بعض دیگر کبار محدثین نے اس کی متابعات و طُرق کو جمع کر کے ثابت کیا ہے کہ کسی سورت والا اضافی لفظ بھی صحیح ہے، شاذ و ضعیف ہر گز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام شوکانی رحمہ اللہ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھنا بھی مشروع قرار دیا ہے۔[3] نمازِ جنازہ کی قراء ت کے جہراً ہونے کے بارے میں بھی بعض روایات ملتی ہیں۔[4] جبکہ جمہور اہلِ علم نے مخفی قراء ت ہی کو ترجیح دی ہے۔[5] البتہ دونوں طرح درست ہے۔ ان مسائل کی تفصیل کا مقام ہماری کتاب ’’احکامِ جنازہ‘‘ ہے، جو پاک و ہند میں شائع ہوچکی ہے۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَ مِنْہُ الْقُبُوْلُ۔ قراء ت میں ترتیبِ قرآن اور ایک رکعت میں کئی سورتیں: نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ایک ہی رکعت میں ملتے جلتے مفہوم و مضمون والی یا
Flag Counter