Maktaba Wahhabi

196 - 430
النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ؟ لَا اُمَّ لَکَ )) [1] ’’میں نے ’’مقامِ ابراہیم‘‘ کے پاس ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا جو اٹھتے، جھکتے، بیٹھتے (بوقتِ انتقال) تکبیر کہتا تھا، میں نے اس کی خبر حضرت ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کو دی تو انھوں نے فرمایا: تیری ماں نہ ہو، کیا یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ نہیں ہے؟‘‘ بائیس (۲۲) مرتبہ کا ذکر بعض صحیح احادیث میں بھی آیا ہے۔[2] حکمِ تکبیرات: یہاں اس امر کی وضاحت بھی کرتے جائیں کہ تکبیرات میں سے صرف پہلی تکبیر، تکبیرِ تحریمہ فرض ہے اور دوسری تکبیراتِ انتقال مندوب و سنت ہیں۔ البتہ حنابلہ کے نزدیک یہ تکبیراتِ انتقال واجب ہیں۔[3] اندازِ تکبیر: اب رہا معاملہ تکبیرات کے انداز کا کہ انھیں کیسے کہا جائے گا؟ تو اس سلسلے میں سیدھی سی بات ہے کہ جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ تکبیریں بھی آہستگی سے ہی کہے گا، کیوں کہ اس نے کسی کو سنانا نہیں ہوتا، لیکن اگر کوئی شخص دوسروں کو جماعت کرا رہا ہو تو اس میں پیش امام کے لیے ضروری ہے کہ نماز سری ہو یا جہری، وہ تکبیریں بلند آواز سے کہے گا، تا کہ دوسرے لوگ اس کی آواز سن کر اقتدا کر سکیں۔ صحیح مسلم، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہر تکبیر کو سنانے کا ذکر بھی آیا ہے۔
Flag Counter