Maktaba Wahhabi

298 - 430
نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ ان کے علاوہ بھی متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیثِ تشہّد ملتی ہے، جن کی مجموعی تعداد بقول امام بزار بیس سے بھی زیادہ ہے۔[1] ’’اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ‘‘ کہنے کا جواز: 1- صحیح بخاری و مسلم، مسند سراج و ابی یعلی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں مروی پہلے نمبر والے صیغہ کے آخر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے تو ہم تشہّد میں (( اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ )) کہا کرتے تھے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے تو ہم حاضر و مخاطب کے اس صیغہ کی بجائے غائب کے صیغہ سے سلام بھیجتے اور یہ کہتے تھے: ’’اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ‘‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو۔‘‘ اس میں شک کی کوئی گنجایش نہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا محض اپنی مرضی سے نہیں کر لیا تھا، بلکہ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد ان کے سامنے ہوگا۔ 2- اس بات کی تائید مصنف ابن ابی شیبہ، مسند سراج اور الفوائد للمخلص میں مروی اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل سے بھی ہوتی ہے، کیوں کہ وہ بھی لوگوں کو تشہّد میں ’’اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ‘‘ کے الفاظ ہی سے سلام سکھلایا کرتی تھیں۔[2] اسی طرح اس بات کا پتا مصنف عبدالرزاق میں امام عطاء رحمہ اللہ سے مروی اثر سے بھی چلتا ہے، جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ایک قوی متابع قرار دیا ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں:
Flag Counter