Maktaba Wahhabi

333 - 430
’’نماز کی سنت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور اس کی انگلیوں کو قبلہ رو رکھیں اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اُس پر بیٹھیں۔‘‘ جواب: یہ حدیث بھی اس مسئلے میں دلیل نہیں بن سکتی۔ کیوں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے ایک دوسری حدیث موطا امام مالک میں بھی مروی ہے، جس میں تورّک کا ذکر یوں آیا ہے کہ قاسم بن محمد رحمہ اللہ نے لوگوں کو نماز پڑھتے وقت قعدہ کا طریقہ دکھایا: (( فَنَصَبَ رِجْلَہُ الْیُمْنٰی وَثَنٰی رِجْلَہُ الْیُسْرٰی وَجَلَسَ عَلَی وَرِکِہِ الْأَیْسَرِ وَلَمْ یَجْلِسْ عَلٰی قَدَمِہٖ )) [1] ’’انھوں نے دایاں پاؤں کھڑا کیا اوربایاں پاؤں بچھایا اور بائیں سرین پر بیٹھے، بائیں قدم پر نہیں بیٹھے۔‘‘ گویا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ان دو طرح کی احادیث میں باہم اختلاف و تعارض پایا جاتا ہے، لہٰذا اسے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نسائی والی حدیث کو قعدۂ اولیٰ پر اور موطا والی حدیث کو قعدۂ ثانیہ پر محمول کیا جائے، لہٰذا دونوں قعدوں ہی میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنے کی افضلیت اس سے بھی ثابت نہ ہوئی، کیوں کہ یہ اور اس موضوع کی دوسری احادیث اپنے موضوع میں مبہم ہیں، جبکہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ والی حدیث مفصّل ہے۔ فَلْیُحْمَلِ الْمُبْہََمُ عَلَـٰی الْمُفَصَّلِ۔ علامہ عبدالحی لکھنوی کا فیصلہ: اس سلسلے میں کبار علمائے احناف میں سے علامہ عبدالحی لکھنوی کا منصفانہ فیصلہ بھی سنتے جائیے۔ چنانچہ وہ ’’التعلیق المُمجّد علیٰ موطأ الإمام محمد‘‘
Flag Counter