Maktaba Wahhabi

358 - 430
مِنَ الْمَسْأَلَۃِ، مِنَ الْکَلَامِ مَا شَاء] )) [1] ’’پھر جو دعا چاہے [جو جی میں آئے، جو دعا اچھی لگی] کرلے۔‘‘ علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ کا اعتراف: علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے ’’نصب الرایۃ‘‘ میں بڑے کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہمارے فقہائے احناف میں سے صاحبِ ہدایہ علامہ مرغینانی نے جو یہ شرط لگائی ہے کہ دعا کا قرآن و سنّت کے الفاظ کے مشابہ یعنی ماثور ہونا ضروری ہے، ان کی اس شرط کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس بات سے قبل انھوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی وہ احادیث بھی ذکر کی ہیں جن سے نمازی کو اپنی مرضی کی دعا اختیار کرنے کا پتا چلتا ہے اورساتھ ہی لکھا ہے کہ ان احادیث میں امام شافعی رحمہ اللہ کے لیے حجت و دلیل پائی جاتی ہے کہ لوگوں کے کلام جیسی دعائیں مانگنا بھی مباح ہے۔ مثلاً یہ کہنا: ’’اَللّٰہُمَّ زَوِّجْنِیْ اِمْرَاَۃً حَسْنَائَ، وَاَعْطِنِیْ بُسْتَانًا اَنِیْقًا‘‘ ’’اے اللہ! مجھے خوب صورت بیوی عطا فرما۔ اے اللہ! مجھے ایک بہترین باغ عطا فرما۔‘‘ لیکن مانعین نے کلام الناس سے دعا مانگنے والے الفاظ کو مسنون و ماثور دعاؤں پر محمول کیا ہے۔[2] سلام پھیرنے کا حکم اور وجوب کے دلائل: قعدہ میں درود شریف اور دعاؤں سے فارغ ہونے کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے جو واجب ہے:
Flag Counter