Maktaba Wahhabi

385 - 430
2- صحیح مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت یعلی ٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ لوگ اب تک سفر میں قصر کیے جا رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ’’جب تم سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں قصر کر لو جبکہ تمھیں اندیشہ ہو کہ کافر تمھیں ستائیں گے۔‘‘ جبکہ آج خوف کی یہ حالت باقی نہیں رہی۔ اس پرحضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (( عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْہُ، فَسَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَقَالَ: صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِہَا عَلَیْکُمْ، فَاَقْبَلُوْا صَدَقَتَہٗ )) [1] ’’جس چیز پر آپ کو تعجب ہو رہا ہے خود مجھے بھی اس پر تعجب ہوا تھا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، لہٰذا تم اس کا صدقہ قبول کرو۔‘‘ قصر کی رکعتیں: قصر کرنے پر ہر نماز کی کتنی رکعتیں پڑھی جاتی ہیں؟ اس کی وضاحت صحیح بخاری و مسلم، ابو داود، نسائی، مسند احمد اور بیہقی میں موجود ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’(شروع میں) نماز کی دو رکعتیں فرض کی گئی تھیں، پھر چار کر دی گئیں، لیکن سفر کی نماز پہلے فرضوں جتنی (دو رکعتیں) ہی رہی۔‘‘[2] یہ تو ظہر و عصر اور عشا کی نمازوں کے بارے میں صریح ہے کہ سفر میں ان کی صرف دو دو رکعتیں ہی پڑھی جائیں گی، جبکہ فجر کی ہوتی ہی دو ہیں اور مغرب کی تین۔ ان دونوں نمازوں کے فرضوںکی تعداد میں کوئی قصر نہیں اور ان میں قصر نہ ہونے پر
Flag Counter