Maktaba Wahhabi

406 - 430
ہے کہ اسی سائل نے پوچھا کہ جب ہم آپ کے ساتھ (مسجد میں مقیم امام کے پیچھے) نماز پڑھتے ہیں تو چار رکعتیں پڑھتے ہیںاور جب ہم اپنی قیام گاہ میں پڑھتے ہیں تو دو رکعتیں پڑھتے ہیں، اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا: ’’یہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔‘‘[1] ان احادیث سے مقیم امام کے پیچھے مسافر مقتدی کی نماز کا جواز ثابت ہوا اور یہ بھی کہ وہ مسافر اس صورت میں نماز مکمل ادا کرے گا، جمہور ائمہ و فقہا کا یہی مذہب ہے۔ امام حسن بصری، ابراہیم نخعی، زہری، قتادہ اور مالک رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ اگر ایک رکعت یا اس سے زیادہ مقیم کی اقتدا میں ملے تو پوری پڑھے اور اگر اس سے کم ملے تو قصر کر سکتا ہے، جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم ، کثیر تابعین اور ائمہ میں سے امام ثوری، اوزاعی، ابو ثور رحمہم اللہ اور حنفیہ و شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ وہ پوری نماز ہی پڑھے گا، چاہے اسے ایک رکعت سے کم نماز ہی مقیم کی اقتدا میں ملے۔[2] علامہ ابن حزم ہر حالت میں قصر کرنے کے قائل ہیں۔[3] سفر میں سنن و نوافل: وہ سفر جس میں نمازیں قصر کی جاتی ہیں، اس کے دوران میں عام سنّتوں اور نوافل کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کے سلسلے میں عام فہم سی بات تو یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض رکعتوں کی چار کے بجائے دو پڑھنے کی اجازت دے دی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عملِ مبارک سے ایک نمونہ قائم فرما دیا ہے تو پھر وہاں سنّتوں اور نوافل کی کیا ضرورت ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے
Flag Counter