Maktaba Wahhabi

415 - 430
حضرت سالم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا بھی جلدی کے سفر میں یہی طریقہ تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو پہلے مغرب کی اقامت ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیتے، پھر بہت معمولی سے وقفے کے بعد دوسری نمازِ عشا کی اقامت ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیتے۔ مغرب و عشا کے مابین یا عشا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نماز (سنّت و نفل) نہیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے۔[1] منزلِ مقصود پرپہنچ کر جمع کرنا: مذکورہ سابقہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید جمع بین الصلوٰتین صرف اسی وقت جائز ہے جب آدمی سفر میں روا ں دواں ہو، جبکہ مؤطا امام مالک میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ تصریح بھی موجود ہے کہ مسافر رواں ہو یا کہیں ٹھہر چکا ہو، جمع کر سکتا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر نماز کو موخر کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قیام گاہ سے نکلے اور ظہر و عصر کو جمع کر کے ادا فرمایا اور دوبارہ اپنی قیام گاہ میں داخل ہو گئے، پھر وہاں سے نکلے اور مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھا۔[2] قیام گاہ میں داخل ہونا اور نکلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نمازیں سفر پر رواں دواں ہونے کی حالت میں نہیں بلکہ ایک جگہ قیام کر چکنے پر جمع کی جا رہی تھیں۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ رواں اور ٹھہرے ہوئے مسافر کے جمع کرنے یا نہ کرنے کے مسئلے میں یہ حدیث قاطعِ التباس اور ہر دو شکلوں میں جمع کے جائز ہونے کی واضح ترین دلیل ہے۔[3]
Flag Counter