Maktaba Wahhabi

26 - 37
ہے،جیسا کہ یہاں پر ہے ۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنا پیٹ اپنی رانوں سے نہیں لگاتے تھے اور امت کو بھی یہ حکم دیا کہ: ’ ’ جس طرح میں نماز پڑھتا ہوں اسی طرح تم بھی نماز پڑھا کرو ۔‘‘ اور یہ حکم جیسا مردوں کو ہے اُسی طرح عورتوں کو بھی ہے۔پس نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم چھوڑ کر حضرت مجاہد رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنا کون سا انصاف ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت مجاہد رحمہ اللہ سے سنداً صحیح ثابت بھی نہیں ہے۔کیونکہ امام مجاہد رحمہٗ اللہ سے جس (لیث بن ابی سلیم)نے یہ روایت کی ہے۔ وہ ضعیف ہے۔ [1] پس یہ قول اگر مجاہد رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہوتا تب بھی قابلِ حجت نہیں تھا،اور جب یہ سنداً صحیح بھی نہیں توپھر کیسے حدیثِ مرفوع کے مقابلے میں قابلِ حجت ہوسکتا ہے۔ احناف کی ساتویں دلیل: حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہا سے سوا ل ہوا کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں ؟انھوں نے فرمایا : ’’چارزانو بیٹھ کر،پھر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ خوب سمٹ کر بیٹھا کریں ‘‘۔[2] اہل حد یث کاجواب : یہ دلیل بھی باقی دلائل کی طرح قابلِ قبول نہیں کیونکہ یہ بھی سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔اس کی سندیوں ہے : (ابو محمد البخاری،عن قبصۃ الطبری،عن زکریا بن یحییٰ النیسابوری،عن عبداللّٰہ بن احمد بن خالد الرازی،عن ابی ثابت رزین یجیع البصری،عن ابراہیم بن مہدی،عن ابی الجواب الاخوص عن سفیان الثوری،عن ابی حنیفۃ عن نافع عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما) اس کا راوی ابو محمد البخاری جس کا اصل نام عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی البخاری
Flag Counter