Maktaba Wahhabi

100 - 96
ثابت ہے اور نہ یہ سبیل المؤمنین ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے ۔جہاں تک (( شَدََّ مِئْزَرَہٗ وَ اَحْیَیٰ لَیْلَہٗ وَ أَیْقَظَ أَہْلَہٗ))یعنی’’ نبی ﷺ کمر کس لیتے ،شب زندہ داری کرتے اور گھر والوں کو جگاتے تھے‘‘، پر عمل کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کثرتِ رکعات کی بجائے قرآنِ پاک بکثرت پڑھا جائے یعنی قراء ت زیادہ کی جائے ۔ جیسا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بیا ن ہے کہ تیسری رات نمازِ تراویح سے ہم اُس وقت فارغ ہوئے کہ سحری فوت ہو جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا ۔ ملاحظہ ہو :سنن ابی داؤد اور مشکوٰۃ ،کتاب الصیام ۔ حَتّیٰ خَشِیْنَا الْفَلاَحَ وَ مَعْنَیٰ الْفَلاَحِ اَلسُّحُوْرُ ۔ حضرت امام شافعی رحمہٗ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں : (اِنْ اَطَالُوْا الْقِیَامَ وَ أَقَلُّوْا السُّجُوْدَ فَحَسَنٌ وَ اِنْ اَکْثَرُوْا السُّجُودَ وَ أَقَلُّوْا الْقِرَائَ ۃَ وَ الْأَوَّلُ أَحَبُّ اِلَيَّ) ۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری بتعلیقات و مراجعہ الشیخ ابن باز ج:۴ ، ص: ۳۵۳ ۔ ’’اگر لوگ رکعات کم پڑھیں اور قراء ت لمبی کریں تو یہ اچھا ہے اور اگر رکعات بڑھالیں اور قراء ت کم کرلیں[ تو یہ بھی ٹھیک ہے] لیکن پہلی صورت یعنی رکعات کم اور قرآن زیادہ پڑھاجائے تو یہ صورت مجھے زیادہ محبوب ہے‘‘۔ فیصلہ : مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں اُن مولانا صاحب کا نمازِ تراویح کے بعد دوبارہ نوافل کی جماعت کرنا ، اس کا اہتمام کرنا ، اس کیلئے لوگوں کو تیار کرنا اور اس پر اصرار کرنا سراسر خلافِ سنّت ہے اور سبیل المؤمنین کے خلاف ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین ، فقہاء و محدّثین اور دوسرے آئمہ دین رحمہم اللہ سے ایسا تکلّف اور اہتمام ہرگز ثابت نہیں ۔ اُن صاحب کا یہ عمل بدعت ہے ۔ اور انہیں اس سے باز آجانا چاہیئے ۔ ہـٰذَا مَا عِنْدِی وَ اللُّٰہُ تَعَالیٰ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ ہفت روزہ اہلحدیث لاہور جلد :۲۰شمارہ :۲۰،۲۱ بابت ۱۳ ،۲۰شوال ۱۴۰۹ ؁ھ ، ۱۹ ،۲۶مئی ۱۹۸۹ ؁ء فتویٰ از قلم شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ عفیف ۔ لاہور ۔
Flag Counter