Maktaba Wahhabi

19 - 96
میں بغیر وتر کے اور وتر سمیت گیارہ (11)اور تیرہ(13)رکعتیں بھی منقول ہیں اور نمازِ تراویح ہی کی سولہ (16)، بیس (20) ، چوبیس (24)، اٹھائیس (28 ) ، چونتیس (34 ) ، چھتّیس (36 ) ، اڑتیس ( 38 )، انتالیس (39)، چالیس (40 )،اکیایس (41)، چھیالیس (46) ،سینتالیس(47 )، اور انچاس(49 ) رکعتیں بھی منقول ہیں۔دیکھیئے :فتح الباری ۴؍۲۵۳ ۔ ۲۵۳ ، عمدۃ القاري ۴؍۷؍۱۷۸ ، ۲۰۴ ۔ ۲۰۵ ۔ ۶؍۱۱؍۱۲۶۔ ۱۲۷ ، نیل الاوطار ۲؍۳؍۵۳ تحفۃ الاحوذی ۳؍۵۲۲ ۔ ۵۳۲ مجالس شہر رمضان للعثیمین ص:۱۸۔۱۹ ایک عام آدمی رکعاتِ تراویح میں اختلاف کی یہ بھر مار دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ آخر صحیح بات کیا ہے؟اور اس اختلاف کا حل کیاہے ؟ اِن عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں تو وتروں سمیت تیرہ رکعتوں کا بھی رواج ہے، جس میں دراصل نمازِ عشاء کی آخری دو سنتیں یا فجر کی پہلی دو سنتیں یا محض دو افتتاحی رکعتیں شامل ہوتی ہیں جیسا کہ عمدۃ القاری (حوالۂ سابقہ) تحفۃ الاحوذی (حوالۂ سابقہ) ، شرح النووی علیٰ مسلم (۳؍۶؍۰۱۶ ۲۱) ، صلوٰۃ التراویح للالبانی (ص: 30 ۔ 32مترجم) اور فتح الملہم مولانا شبیر احمد عثمانی (۲؍۲۸۸ )، میں تفصیل مذکور ہے ۔ ہمارے برِّ صغیر کے ممالک پاک و ہند و غیرہ میں صرف دو ہی عدد معروف ہیں :ایک وتروں سمیت گیارہ (11) رکعات یعنی آٹھ (7)تراویح،اور دوسرا وتروں سمیت تئیس (23)رکعات یعنی بیس (20) تراویح ، اور ان ہر دو نظریہ کے قائلین علماء نے اپنا اپنا موقف ثابت کرنے کے لیٔے آج تک بیشمار کتابیں ، رسالے اور مضامین و مقالے لکھے ہیں اور فریقین نے ہی اپنی اپنی بات منوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے ۔ لیکن عوام الناس کے نزدیک آج بھی یہ سوال باقی ہے کہ آخر صحیح بات اور عددِ مسنون کیا ہے ؟ اور فقہائِ مذاہب کے ما بین پائے جانے والے اس اختلاف کا حل کیا ہے ؟ مسنون عددِتراویح :
Flag Counter