Maktaba Wahhabi

39 - 96
اُنکے سماع کا اعتبار نہیں ۔امام نسائی فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے اُن سے انکی آخری عمر میں سماع کیا ہے انکا سماع محلِّ نظر ہے اور مقدمہ الفصل( ص :391)میں فرماتے ہیں :جن رواۃ کے حافظہ میں اختلاط رونما ہوجائے ان سے جن شاگردوں نے اختلاط سے پہلے جو کچھ روایت کیا ہو، انکی اُس روایت کو قبول کیا جائیگا ۔ جبکہ یہ مذکورہ اثر مشتبہ روایتوں میں داخل ہے ۔ نیز اس میں شذُوذ اور مخالفتِ صحیح بھی موجود ہے ،جو اسکو ضعیف بنا رہی ہے ۔ التقریب ص : ۳۲۴ و نمازِ تراویح ص :۴۱ اردو ، ص : ۴۸ ۔ ۴۹ عربی ۔ دوسرا اثرِ فاروقی : ایسے ہی حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک دوسرا اثر مصنف ابن ابی شیب ہمیں یحیٰ بن سعید رحمہٗ اللہ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں : (أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ أَمَرَ رَجُلاً یُصَلِّيْ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً )۔ ’’حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات نمازِ تراویح پڑھائے ‘‘۔ بحوالہ تحفۃ الاحوذی ۳؍۵۲۸، نمازِ تراویح ص : ۶۴ ۔ اس اثر کے بارے میں مولانا شوق نیموی حنفی آثار السنن میں لکھتے ہیں کہ اس کی سند کے راوی تو ثقہ ہیں لیکن یحیٰ بن سعید انصاری نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں اور علّامہ شوقی نیموی کی تائید کرتے ہوئے علّامہ عبد الرحمن مبارکپوری تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں کہ یہ اثر منقطع اور ناقابلِ استدلال و حجّت ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ مؤطا امام مالک اور دیگر کتبِ حدیث میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابیّ بن کعب اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہما کو گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم فرمایا تھا ۔ ایسے ہی یہ اس صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے جسکی رو سے نبی ﷺ کا گیا رہ رکعتیں پڑھنا ثابت ہے ۔ حوالہ جاتِ سابقہ ۔ تیسرا اثر :
Flag Counter