Maktaba Wahhabi

40 - 96
سنن کبریٰ بیہقی اور بعض دیگر کتبِ حدیث میں ایک تیسرا اثر یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں : ’’ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے ۔قاری حضرات سَو سَو آیات تلاوت کرتے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں لوگ طولِ قیام کی تکلیف کے پیشِ نظر چھڑیوں یا لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے‘‘ ۔ فتح الباری ۴؍۲۵۳ ،نمازِ تراویح ص: ۴۹،۶۱،۶۲ ۔ عمدۃ القاری میں نقل کی گئی نص کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی ایسے ہی تھا جیسا کہ پہلے خلفاء کے عہد میں رہا ۔ العمدۃ ۴؍۷؍۱۷۸ ۔ اس اثر میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ’’حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں بھی ایسے ہی تھا‘‘۔ ان الفاظ کے بارے میں مولانا شوق نیموی نے کہا ہے کہ یہ مُدْرج قول ہے ،امام بیہقی کی تصنیفات میں کہیں بھی اس کا سراغ نہیں ملتا اور علّامہ مبارکپوری نے مولانا نیموی کے اس تبصرہ کی تصدیق کی ہے ۔ التحفہ ۳؍۵۳۱ ۔ رہی اس اثر کی استنادی حیثیت تو اس اثر کو بڑے شدّ و مد سے پیش کیا جاتا ہے کیونکہ بظاہر اسکی سند صحیح نظر آتی ہے بلکہ بعض اہلِ علم نے اسے صحیح کہا بھی ہے ۔ دیکھیٔے :عمدۃ القاری ۴؍۷؍۱۷۸ لیکن بنظرِ غائر دیکھا جائے تو اس اثر کو ضعیف کرنے والے کئی و عوامل وعِلل موجود ہیں اور وہ اسے ’’منکر ‘‘ کی قسم میں بھی داخل کر رہے ہیں ۔ پہلی علّت : ان میں سے پہلی علّت یا سببِ ضُعف یہ ہے کہ ابنِ خصیفہ اگرچہ ثقہ ہے لیکن امام احمد بن حنبل نے اسے منکر الحدیث کہا ہے ،امام ذہبی نے اسے میزان الاعتدال میں ذکر کیا ہے جو اسکے متکلّم فیہ راوی ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ اور امام احمد کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کبھی کبھی ایسی روایات میں منفرد رہ جاتا ہے جن کو ثقہ راوی روایت نہیں کر رہے ہیں ۔لہٰذا ایسے راوی کی بیان کردہ روایت کو اس وقت ردّ کر دیا جائیگا جب وہ اپنے سے زیادہ قوّیُ الحافظہ راوی کی مخالفت کرے ۔ ایسی صورت میں اصولِ حدیث کی رو سے ایسی روایت کو شاذ کہا جائیگا ۔
Flag Counter