Maktaba Wahhabi

49 - 96
مذکورہ اثر کی سند سے دو راوی ساقط ہوگئے ہیں لہٰذا یہ اثر معضل اور ضعیف ہے ۔ نمازِ تراویح ایضاً ۔ تحفۃ الاحوذی میں حافظ ابن حجر اور امام ذہبی کے مذکورہ اقوال نقل کرنے کے علاوہ مولانا شوق نیموی کا قول بھی نقل کیا گیا ہے چنانچہ آثار السنن کے حاشیہ پر وہ لکھتے ہیں کہ اس اثر کا سارا دار و مدار ابو الحسناء پر ہے اور وہ غیر معروف ہے ۔ التحفۃ ۳؍۵۲۷ ۔ ساتواں اثر : سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک اثر ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے جس میں حماد بن شعیب عن عطال ابن السائب عن ابی عبد الرحمن السلمی کے طریق سے سلمی بیان کرتے ہیں : (دَعَا عَلِيٌّ رضی اللّٰه عنہ الْقُرَّائَ فِيْ رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْہُمْ رَجُلاً یُصَلِّيْ بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَکَانَ عَلِيٌّ یُوْتِرُ بِہِمْ) ۔ التحفۃ ۳؍۵۲۷ ۔ ۵۲۷ ، نمازِ تراویح ص: ۶۶ ،۷۴ عربی ۔ ’’ ماہِ رمضان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قرّاء حضرات کو بلایا اور ان میں سے ایک آدمی کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو بیس تراویح پڑھایا کرے ۔ اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نمازِ وِتر پڑھایا کرتے تھے ‘‘ ۔ اس اثر کے بارے میں مولانا نیموی شوق حنفی نے آثار السنن میں لکھا ہے :حماد بن شعیب ضعیف ہے ۔ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اسکے بارے میں کہا ہے کہ اسے ابن معین وغیرہ کبار محدّثین نے ضعیف کہا ہے اور یحیٰ نے ایک مرتبہ کہا : اس کی روایت کردہ حدیث نہیں لکھی جائیگی ۔ امام بخاری نے کہا ہے کہ وہ محلِّ نظر ہے، امام نسائی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن عدی نے کہا ہے: اسکی روایت کردہ اکثر احادیث ایسی ہیں جن پر اسکی متابعت نہیںکی جائیگی ۔ یہ تو اس اثر کے بارے میں ایک حنفی عالم کا نقد و تبصرہ ہے ، جبکہ ایک دوسرے عالم ابن الہمام التحریر میں لکھتے ہیں کہ جب امام بخاری کسی راوی کے بارے میں کہہ دیں کہ وہ محلِّ نظر ہے ، تو اس راوی کی بیان کردہ روایت نہ قابل حجتِ ہوتی ہے نہ قابلِ استشہاد اور نہ ہی لائقِ اعتبار ۔ اور علّامہ مبارکپوری لکھتے ہیں کہ اس اثر کی سند میں حماد بن شعیب ہے جسکے بارے میں امام بخاری نے کہا
Flag Counter